رسائی کے لنکس

بھارت: کرونا ویکسین ’کووی شیلڈ‘ کے منفی اثرات پر تنازع، معاملہ ہے کیا؟


  • بھارت میں کرونا وبا سے لاکھوں افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
  • بھارت میں 'کووی شیلڈ' اور 'کو ویکسین' کے نام سے کرونا ویکسین استعمال کی گئی تھی۔
  • کووی شیلڈ کو برطانیہ کی کمپنی ’آسٹرا زینیکا‘ نے تیار کیا تھا جسے بھارت میں پونہ کے ایک نجی ادارے ’سیرم انسٹی ٹیوٹ‘ نے بنایا تھا۔
  • ایک جریدے ’اسپرنگر نیچر‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ویکسین لینے والوں میں تین بڑے منفی اثرات یعنی جلدی امراض، عمومی امراض اور اعصابی نظام میں خلل کی شکایات پائی گئیں۔

کرونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے استعمال کی جانے والی ویکسین ’کووی شیلڈ‘ کے منفی اثرات کی رپورٹس کے بعد ’کوویکسین‘ کے منفی اثرات کے انکشاف نے صحت کے اہل کاروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایک سیاسی تنازع بھی پیدا ہو گیا ہے اور حزبِ اختلاف کی متعدد جماعتوں نے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

بھارت میں مذکورہ دونوں ویکسین لگائی گئی تھیں۔ کووی شیلڈ کو برطانیہ کی کمپنی ’آسٹرا زینیکا‘ نے تیار کیا تھا جسے بھارت میں پونہ کے ایک نجی ادارے ’سیرم انسٹی ٹیوٹ‘ نے بنایا تھا۔ جب کہ کوویکسین کو بھارت کے سرکاری ادارے ’بھارت بائیو ٹیک‘ نے تیار کیا تھا۔

’بنارس ہندو یونیورسٹی‘ (بی ایچ یو) میں ایک سال کے مطالعے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’کوویکسین‘ کی خوراک لینے والوں میں سے ایک تہائی افراد میں منفی اثرات پائے گئے ہیں۔

ایک جریدے ’اسپرنگر نیچر‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ویکسین لینے والوں میں تین بڑے منفی اثرات یعنی جلدی امراض، عمومی امراض اور اعصابی نظام میں خلل کی شکایات پائی گئیں۔

اس مطالعے میں 635 افراد سے رابطہ قائم کیا گیا جن میں 291 بالغ تھے۔ مطالعے میں شامل ساڑھے چار فی صد سے زائد خواتین نے ماہواری میں خرابی کی شکایت کی۔ چار میں ذیابیطس اور تین میں ہائپر ٹینشن کی شکایات پیدا ہوئیں۔ زیر تجربہ افراد میں سے اس دوران تین بالغ خواتین اور ایک بالغ مرد کی موت ہو گئی۔

قبل ازیں دو مئی کو بھارت بائیوٹیک نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ویکسین کی تیاری میں حفاظتی اقدامات اور منفی اثرات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ یہ واحد کرونا ویکسین ہے جس کا کامیاب تجربہ حکومت کے ایمونائزیشن آزمائشی پروگرام میں کیا گیا تھا۔

کرونا وبا کے بعد مریضوں کی تعداد میں اضافے کی شکایات

ڈاکٹرز کے مطابق بھارت میں بھی کرونا کی وبا کے بعد مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اچانک اموات کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں میں حرکت قلب بند ہونے سے موت کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔

برطانوی میڈیا میں اپریل کے اواخر میں ’کووی شیلڈ‘ کے سائیڈ ایفیکٹس یا منفی اثرات سے متعلق خبریں شائع ہوئیں اور مختلف عدالتوں میں آسٹرا زینیکا کے خلاف 50 سے زائد مقدمات درج کیے گئے اور کروڑوں روپے کے معاوضے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کے مطابق ان کے عزیزوں اور رشتے داروں کی موت ویکسین کی وجہ سے ہوئی ہے۔

ایک امریکی خاتون نے ایک عدالت نے آسٹرازینیکا کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویکسین لینے کی وجہ سے وہ مکمل معذور ہو گئی ہیں۔

ان کے مطابق کمپنی نے سائیڈ ایفیکٹ کے علاج کی پروا نہیں کی۔ انھوں نے ایک تجرباتی مہم کے دوران 2020 میں ویکسین کی خوراک لی تھی اور چند گھنٹوں کے بعد ہی منفی اثرات ظاہر ہو گئے۔

آسٹرازینیکا نے 28 اپریل کو لندن کی ایک عدالت میں کووی شیلڈ سے ہونے والے سائیڈ ایفیکٹ کا اعتراف کیا تھا۔ اس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ویکسین کی وجہ سے ٹی ٹی ایس کی شکایت ملی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ٹی ٹی ایس کی وجہ سے ہی بلڈ کلاٹنگ، پلیٹ لیٹ کی کمی اور برین ہیمریج کی شکایت پیدا ہوتی ہے۔

اس نے منفی اثرات کی شکایات اور عدالتوں میں مقدمات قائم ہونے کے بعد صحت مراکز سے ویکسین کی تین ارب سے زائد خوراکیں واپس لے لی ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی شکلیں پیدا ہونے کے بعد اس ویکسین کی ڈیمانڈ میں کمی آ گئی ہے۔

تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزاد تخمینے کے مطابق اس کے استعمال کے پہلے سال میں 6.5 ملین افراد کی جانیں بچائی جا سکیں۔ ہماری کوششوں کو پوری دنیا کی حکومتوں نے تسلیم کیا اور احترام کی نظر سے دیکھا۔

منفی اثرات کا جائزہ لینے کے مطالبات

بھارت کی سپریم کورٹ میں بھی مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ ایک وکیل وشال تیواری نے اپنی درخواست میں ویکسین سے ہونے والے مبینہ نقصان کا معاوضہ دینے کے لیے ایک ڈائریکٹوریٹ بنانے کے لیے حکومت کو ہدایت دینے کی اپیل کی ہے۔ اس کے علاوہ منفی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین کی ایک اعلی سطحی کمیٹی بنانے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔

نئی دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں ’کمیونٹی میڈیسن‘ شعبے کے سربراہ ڈاکٹر جگل کشور کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ حرکت قلب بند ہونے، ذیابیطس اور دیگر امراض بڑھ رہے ہیں۔ نوجوان نسل میں بھی بہت سے امراض پیدا ہو رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہم یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی وجہ کرونا ویکسین ہے یا کرونا کے بعد کے حالات ہیں۔ ایسے نتائج آسانی سے نہیں نکالے جا سکتے۔ اس کے لیے برسوں کی ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں عوام کا طرزِ زندگی بھی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو اتنی زیادہ ویکسین لگائی بھی نہیں گئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ مختلف امراض کے شکار ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کو ویکسین کی خوراکیں دی گئیں۔ لیکن اگر ان لوگوں میں سائیڈ ایفیکٹس کا جائزہ لیں تو ان کی تعداد بہت معمولی ہے۔

ان کے مطابق سائیڈ ایفیکٹ ہر ویکسین کا ہوتا ہے۔ اگر پانی کی ویکسین لگے تو اس کے بھی سائیڈ ایفیکٹس ہوں گے۔ ان کے مطابق کرونا کی ویکسین نے لاکھوں جانیں بچائی ہیں۔

'یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ زیادہ بیماریاں ویکسین کی وجہ سے پھیلی ہیں'

صفدر جنگ اسپتال اور باڑہ ہندو راؤ اسپتال کے سابق ڈاکٹر اور ’یونانی ہربل کلینک سیکسوول ویکنیس‘ کے ڈاکٹر اسلم جاوید کہتے ہیں کہ ویکسین کی تیاری میں برسوں لگتے ہیں۔ آج تک بہت سے امراض جیسے کہ ایڈز، ایچ آئی وی، ہیپیٹائٹس بی، سی وغیرہ کی ویکسین نہیں بن سکی ہیں۔ وہ کووی شیلڈ اور کو ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کرونا ویکسین کے منفی اثرات ہیں جو اب دکھائی دینے لگے ہیں۔ حرکت قلب کا بند ہو جانا، بلڈ پریشر میں زیادتی، ذیابیطس، سانس کی بیماری، جسمانی کمزوری اور خواتین کے امراض میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آج بھارت میں ہر تیسرا شخص ذیابیطس کا مریض ہے۔

تاہم ان کے مطابق یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ جو نئی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں وہ کرونا ویکسین کی وجہ سے ہی ہو رہی ہیں۔

لیکن اگر کسی شخص کو پہلے کوئی بیماری نہیں تھی اور اب ہو گئی ہے تو وہ مکمل باڈی چیک اپ کرائے تب ہی اس کے اسباب ڈھونڈے جا سکیں گے۔ ان کے مطابق جو نئے امراض پیدا ہو رہے ہیں ان پر اچھی غذا سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ جب کووی شیلڈ کے منفی اثرات سے متعلق رپورٹس شائع ہوئیں تو بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت پر تنقید کی اور اس خاموشی پر سوال کیا۔

'وزیرِ اعظم مودی کی تصویر ہٹا لی گئی'

ویکسی نیشن کے دوران جاری کیے جانے والے سرٹی فکیٹ پر وزیرِ اعظم مودی کی تصویر لگی رہتی تھی لیکن اس تنازع کے سامنے آنے کے بعد تصویر ہٹا لی گئی ہے۔ اس بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی وجہ سے مودی کی تصویر ہٹائی گئی ہے۔

اسی دورن یہ خبر بھی آئی کہ ’سیرم انسٹی ٹیوٹ‘ نے 52 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈز خرید کر بی جے پی کو دیے تھے۔ اس کے بعد ہی کووی شیلڈ کو منظوری ملی تھی۔ لیکن بعض دوسری رپورٹوں میں اس خبر کی تردید کی گئی تھی۔

وزارتِ خارجہ کے مطابق کرونا وبا کے دوران بھارت نے 160 ملکوں کو ویکسین کی خوراکیں سپلائی کی تھیں۔ اس نے جنوری 2001 سے جون 2023 کے درمیان ویکسین کی 30.1 کروڑ خوراکیں متعدد ملکوں کو سپلائی کی تھیں۔ جن میں سے 77 فی صد فروخت کی گئیں۔ 17.3 فی صد کم آمدن والے ملکوں کو برآمد کی گئیں اور باقی مفت دی گئیں۔

حکومت کے مطابق اس وقت بھی بھارت چین اور روس کے بعد کووڈ ویکسین کی کمرشل سپلائی کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس نے اب تک کمرشل بنیادوں پر 23.4 کروڑ خوراکیں برآمد کیں ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG