رسائی کے لنکس

پنجاب میں مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟


 پنجاب میں حالیہ دنوں میں مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں حالیہ دنوں میں مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ ہوا ہے۔

  • لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس مقابلوں میں اضافہ ہوا ہے۔
  • بعض واقعات میں پولیس کا یہ مؤقف بھی سامنے آتا ہے کہ ڈاکو 'اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے' ہلاک ہو گئے۔
  • پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال مئی تک صوبائی دارالحکومت لاہور میں مجموعی طور پر 40 سے زائد پولیس مقابلے ہو چکے ہیں۔
  • پولیس کو مبینہ پولیس مقابلوں کے بجائے امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے پر زور دینا چاہیے: ماہرین
  • پولیس اہلکار اپنے دفاع میں حملہ آور پر فائرنگ کر سکتے ہیں: سابق آئی جی افضل شگری

لاہور -- پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حالیہ دنوں میں مبینہ پولیس مقابلوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان پولیس مقابلوں پر سوال اُٹھا رہی ہیں۔ تاہم پنجاب پولیس کا مؤقف ہے کہ پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس مقابلے بھی بڑھ رہے ہیں۔

بعض واقعات میں پولیس کا یہ مؤقف بھی سامنے آتا ہے کہ ڈاکو 'اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے' ہلاک ہو گئے۔

ایسا ہی ایک مقابلہ گزشتہ ہفتے 12 مئی کو لاہور میں ہوا جس کے بعد پولیس کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث چار دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے ہیں۔

ان چار مبینہ دہشت گردوں میں سے ایک ملزم فیضان پہلے ہی پولیس حراست میں تھا اور اس پر کم از کم دو پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ میں مارنے کا الزام تھا۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق 20 سالہ ملزم فیضان کا تعلق لاہور سے تھا جس کے خلاف 14 سال کی عمر میں تھانہ شاہدرہ میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اِسی ملزم کے خلاف 2018 اور 2021 میں بھی غیر قانونی اسلحہ اور بارودی مواد رکھنے کا مقدمہ درج ہوا۔

پولیس کو دیے گئے ملزم فیضان کے اعترافی بیان کے مطابق پولیس نے اِس کو جعلی مقدمے میں جیل بھیجا تھا۔ وہ اب اس کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ عدالت میں جمع کرائے گئے ملزم فیضان کے بیان کے مطابق جیل میں اُس کی ملاقات کچھ لوگوں سے ہوئی جس نے اُس کی ضمانت کرائی اور اُسے سرحد پار بھیج دیا۔ جہاں سے واپسی پر اُس نے دو پولیس اہلکاروں کو قتل کر دیا۔

پولیس اہلکاروں کے قتل کے بعد پولیس نے ملزم فیضان کو گرفتار کیا اور ریمانڈ کے لیے عدالت بھی پیش کیا۔ تاہم جلد ہی یہ بیان جاری کر دیا گیا کہ ایک پولیس مقابلے کے دوران وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔

اِسی طرح کے چند اور مبینہ پولیس مقابلے صوبہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں گزشتہ چند ماہ میں ہوئے ہیں۔ کم وبیش تمام پولیس مقابلوں کے بعد سرکاری طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ملزمان اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے جس پر وائس آف امریکہ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر پولیس مقابلے ہوتے کیوں ہیں اور ملزمان کو عدالت سے سزائیں کیوں نہیں ہو پاتیں؟

پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال مئی تک صوبائی دارالحکومت لاہور میں مجموعی طور پر 40 سے زائد پولیس مقابلے ہو چکے ہیں جب کہ صوبے میں یہ تعداد 80 سے زائد ہے۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ پولیس کو مبینہ پولیس مقابلوں کے بجائے امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنانے پر زور دینا چاہیے جس سے پولیس کا بطور فورس تاثر بہتر ہو گا۔ دوسری جانب پولیس حکام کے مطابق اُن کے پاس تمام پولیس مقابلوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

'جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو ردِعمل آتا ہے'

ڈپٹی انسپکٹر جنرل آرگنائزڈ کرائم عمران کشور کہتے ہیں کہ جب پولیس جرائم پیشہ افراد یا خطرناک گینگز پر ہاتھ ڈالتی ہے تو ایسے گروہوں کی جانب سے ردِعمل بھی آتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند دِنوں میں ایسے پولیس مقابلے بھی ہوئے جن میں پولیس اہلکاروں کی بھی جان گئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ماہ میں صرف لاہور شہر میں ہونے والے پولیس مقابلوں میں پولیس کے سات افسر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ڈی آئی جی عمران کشور کا کہنا تھا کہ پولیس تو یہ چاہتی ہے کہ ہر پولیس مقابلے کی تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ غلط فہمیاں دُور ہو سکیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کسی بھی قسم کی انکوائزی کے لیے کسی بھی سطح پر تیار ہے۔

سابق انسپکٹر جنرل پولیس افضل علی شگری کہتے ہیں کہ ماورائے عدالت کوئی بھی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس مقابلے ہوتے ضرور ہیں جن میں پولیس والے بھی جان کی بازی ہارتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مارے جاتے ہیں۔

'اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی جا سکتی ہے'

افضل شگری کا کہنا تھا کہ پولیس مقابلے عمومی طور پر اِس لیے ہو جاتے ہیں کہ اگر پولیس کسی جگہ چھاپہ مارنے یا کوئی کارروائی کرنے جا رہی ہے تو وہاں پر پہلے سے موجود جرائم پیشہ افراد مزاحمت کرتے ہیں اور فائرنگ میں پہل کرتے ہیں جس پر پولیس بھی جوابی کارروائی کرتی ہے۔

افضل شگری کے مطابق کسی بھی کارروائی کے دوران اگر پولیس پر جرائم پیشہ افراد افراد فائرنگ کریں تو قانون اِس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے دفاع یا بچاؤ میں طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں کچھ پابندیاں اور قواعد ہیں جس میں سرِ فہرست یہ ہے کہ صرف اتنی فورس استعمال کی جائے جتنی ضرورت ہے۔ زیادہ فورس اور زیادہ طاقت استعمال کرنے کی صورت میں پولیس کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی ہو سکتی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان میں 618 افراد کی ماورائے عدالت ہلاکت ہوئی جن میں سے 33 افراد پولیس حراست کے دوران مارے گئے جب کہ 13 افراد مبینہ تشدد سے ہلاک ہوئے۔

یاد رہے کہ صوبہ پنجاب میں جب بھی شہباز شریف وزیرِ اعلٰی رہے تو پولیس مقابلوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ شہباز شریف کو خود ایک مشہور کیس سبزہ زار پولیس مقابلہ میں کارروائی کا سامنا تھا جس میں وہ بعد ازاں ورثا کی جانب سے کیس واپس لینے پر بری ہو گئے تھے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی ڈائریکٹر فرح ضیاء کہتی ہیں کہ اُن کا ادارہ ماورائے عدالت ہلاکتوں پر اپنی آواز اٹھاتا رہتا ہے مگر بدقسمتی ہے کہ حکومت میں پارلیمان سے لے کر کسی بھی جگہ اور سطح پر اِن پر بات نہیں ہوتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں کچھ خامیاں ہیں جس کے باعث پولیس میں احتساب کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس نظام کو بہتر کرنے کی کوئی کوشش بھی نہیں کرتا۔

افضل شگری سمجھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو گرفتار کر کے مارا جائے اور کہا جائے کہ وہ پولیس مقابلہ تھا تو وہ پولیس مقابلے کے زمرے میں نہیں آتا۔ ایسا غیر قانونی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ماوارئے عدالت قتل اور پولیس مقابلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔

افضل شگری کہتے ہیں کہ پولیس کا بنیادی کام لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کرنا ہے کسی کی جان لینا نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسا کر رہا ہے تو وہ غلط ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG