پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں اور ہلاکتوں میں تشویش ناک حد تک اضافے نے صوبائی حکومت اور ڈاکٹروں کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔
صوبے کے اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات میں کمی کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
صوبائی محکمۂ صحت کے عہدیداروں کے مطابق ایک روز میں صوبے میں 11 ہزار 890 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد صوبے میں پیر تک کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 13 ہزار 487 ہے۔
صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ پیر کو کرونا وائرس سے 575 افراد ہلاک ہوئے۔ ایک روز پہلے اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 521 تھی۔
خیبر پختونخوا میں ہلاکتوں اور نئے کیسز میں مسلسل اضافے کے بعد تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دور دراز علاقوں میں مقامی طور پر وائرس کی منتقلی بھی صوبائی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
محکمۂ صحت کے عہدیداروں، ڈاکٹروں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مخصوص روایات اور لاعلمی کے باعث زیادہ تر مشتبہ مریض ابتدائی دنوں میں اسپتالوں اور ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ مرض کی شدت کے باعث زیادہ تر لوگوں کی اموات بھی گھروں میں ہوتی ہیں اور اس قسم کے واقعات کو چھپانے سے بھی مریضوں اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا کے تمام چھوٹے و بڑے سرکاری اسپتالوں کے 7526 بیڈز میں سے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے اب تک صرف 812 بیڈز مختص کیے گئے ہیں۔
سرکاری اسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر مریضوں کو یا تو نجی اسپتالوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور یا مریض گھروں میں ازخود علاج معالجے اور احتیاطی تدابیر اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر کے تمام سرکای اسپتالوں میں فعال وینٹی لیٹرز کی تعداد 277 ہے۔ مگر ایک سینئر ڈاکٹر کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں فعال وینٹی لیٹرز کی تعداد کسی بھی طور پر 100 سے زیادہ نہیں ہے۔
ان کے بقول ان وینٹی لیٹرز سے استفادہ کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے اور اب تک جو بھی کرونا کا مریض وینٹی لیٹر پر گیا ہے وہ جانبر نہیں ہو سکا ہے۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت صوبے میں کرونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 13487 ہے۔ جب کہ گھروں اور ہوٹلوں وغیرہ میں قرنطینہ کیے گئے مریضوں کی تعداد 6764 ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں زیرِ علاج مریضوں کی تعداد 558 ہے جن میں سے 533 کو آکسیجن کی فراہمی جاری ہے۔ جب کہ 56 مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں۔
اسپتالوں میں زیرِ علاج مریضوں میں 280 کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ صوبے میں اب تک کرونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 3221 ہے۔ اس وبا سے صوبے میں 490 افراد کی اموات ہو چکی ہے جن میں 26 ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل اور محکمۂ صحت کے دیگر اہلکار بھی شامل ہیں۔
ایک سینئر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ صوبے بھر میں ڈاکٹروں، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور محکمۂ صحت سے تعلق رکھنے والے دیگر اہلکاروں پر مشتمل 2060 افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔
طبی سہولیات کا فقدان
سرکاری اسپتالوں بالخصوص پشاور کے سرکاری اسپتالوں میں کرونا سے متاثرہ مریضوں کے لیے علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔
ایک سینئر ڈاکٹر نے بتایا گزشتہ ہفتے بدھ کے روز پشاور کے ایک میڈیکل کالج کے سابق وائس پرنسپل کو کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے باوجود اُنہیں لیڈی ریڈنگ، خیبر ٹیچنگ اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں سے کسی بھی اسپتال میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ بعد میں اُنہیں ایک نجی اسپتال میں داخل کیا گیا۔
پشاور کا لیڈی ریڈنگ اسپتال
خیبر پختونخوا میں پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور صوبے بھر کے نہ صرف کرونا وائرس سے متاثرہ مریض بلکہ دیگر امراض سے متاثرہ زیادہ تر مریض اسی اسپتال سے رجوع کرتے ہیں۔
صوبے بھر میں کرونا سے ہلاک ہونے والے 490 اموات میں سے 120 اموات پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں میں ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سات سالوں سے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا انتظام امریکہ میں رہائش پزیر ڈاکٹر نوشیروان برکی کے ہاتھوں میں ہے۔
ڈاکٹر نوشیروان برکی وزیرِ اعظم عمران خان کے کزن ہیں اور وہ پچھلے کئی مہینوں سے امریکہ ہی سے ویڈیو کال کے ذریعے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا انتظام چلا رہے ہیں۔
اسپتالوں میں مزید مریضوں کی گنجائش ختم
ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم کے صدر ڈاکٹر رضوان کنڈی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی مزید گنجائش نہ ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ ڈاکٹروں، نرسز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور محکمۂ صحت کے دیگر اہلکاروں کی بڑی تعداد کرونا سے متاثرہ مریضوں میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اسپتالوں میں عام لوگوں کو متاثرہ مریضوں کے طور پر آنے دیا جاتا ہے۔ لہذا اب عام لوگوں کو احتیاط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
صوبائی حکام اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مخصوص خاندانی روایات کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں کرونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد ملک کے دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔
‘سارک ڈاکٹرز ایسوسی ایشن’ کے صدر ڈاکٹر عمر ایوب خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روایتی پابندیوں کے علاوہ پچھلی کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد صوبے میں رہائش پزیر ہے۔
ان کے بقول صوبے میں ایڈز، ہیپا ٹائٹس اور اس جیسی دیگر بیماریاں پھیلنے کی بڑی وجہ افغان مہاجرین ہیں۔
ڈاکٹروں، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے زیادہ متاثر ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر ایوب نے کہا کہ انہیں فراہم کردہ حفاظتی سامان انتہائی کم ہے۔ اس کے مقابلے میں مریضوں اور متاثرہ افراد کا رش بہت زیادہ ہے۔
حفاظتی سہولیات کی فراہمی اور حکومتی دعوے
خیبر پختونخوا کے وزیرِ صحت تیمور سلیم جھگڑا پچھلے کئی ہفتوں سے مختلف اجلاسوں اور بیانات میں ڈاکٹروں، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو حفاظتی سہولیات فراہم کرنے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ مگر انہوں نے محکمۂ صحت کے تمام عہدیداروں کو ذرائع ابلاغ کو اس سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے سے منع کر رکھا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ محمود خان کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر بھی سرکاری اسپتالوں میں تمام انتظامات اور ڈاکٹروں کو حفاظتی سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اجمل وزیر نے کہا کہ پشاور، مردان، ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان کے بڑے اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستروں اور علاج معالجے کی کافی گنجائش موجود ہے۔
ان کے بقول چونکہ زیادہ تر متاثرہ مریضوں کا تعلق پشاور سے ہے اور صوبے کے زیادہ مریض اور ان کے رشتے دار بھی پشاور کے اسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے پشاور کے نواحی علاقوں کے اسپتالوں میں انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔