کرونا کی وبا کے دوران ابتدا میں یہ کہا جا رہا تھا کہ بچے اس وائرس سے محفوظ ہیں۔ زیادہ خطرہ معمر لوگوں کو ہے اور ان میں بھی پچاس سے ستر برس کے لوگوں کو۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ اس وبا کا زور ابھی ٹوٹا نہیں تھا کہ اچانک بچے بہت بیمار ہو کر ہسپتال پہنچنا شروع ہو گئے۔
پہلے یہ اطلاعات یورپ سے آئیں کہ اسکول جانے کی عمر کے بچے ایک خاص طرح کی بیماری کے ساتھ اسپتال لائے جا رہے ہیں جن میں بہت تیز بخار، جسم پر ریش، پیٹ کی تکلیف اور قے آنا وغیرہ شامل ہے۔
وہاں اس بارے میں تحقیق کی جا رہی ہے کہ آیا بچے کووڈ 19 کا شکار ہو رہے ہیں؟ اب ان ہی علامات کے ساتھ بچے نیویارک کے اسپتالوں میں بھی لائے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے دوران 85 بچے بیمار ہو کر اسپتال پہنچے اور ان میں سے تین جانبر نہ ہو سکے۔ طبی ماہرین نے فوراً اس بات کی تحقیق شروع کر دی ہے کہ آیا ان بچوں کی یہ حالت کرونا وائرس کی وجہ سے ہے۔
ڈاکٹر حفیظ رحمان، نیویارک کی ہافسٹرا یونیورسٹی کے میڈیکل اسکول میں بچوں کے امراض کے شعبے کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کئی ایوارڈز لے چکے ہیں، جن میں مارٹن لوتھر کنگ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
وہ کہتے ہیں یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ بچے اتنے بیمار ہو کر اسپتال پہنچ رہے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی پوری کوشش ہے کہ ان کی اس حالت کا صحیح اندازہ لگا کر درست تشخیص کریں تاکہ ان کا جلد اور درست علاج ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ بچوں میں علامات تو کاواساکی نامی بیماری کی ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ بھی پازیٹو آیا ہے۔ کاواساکی کے مرض کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بچوں میں خون کی نالیوں میں سوزش کی بیماری ہے۔
ڈیلس، ٹیکساس میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے میڈیکل سکول میں کلینیکل پیڈیاٹرکس کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خوشنود احمد کہتے ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا بچے کے بہت سے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، اس کے خون کے نمونے لیے جاتے ہیں اور پوری تصدیق کے بعد علاج کیا جاتا ہے تاکہ کو ئی شبہ نہ رہے کہ اسے کاواساکی مرض ہی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران اگر بچوں میں کاواساکی مرض جیسی علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو پہلے کووڈ 19 کا خطرہ دور کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس انفیکشن میں مبتلا ہونے والے بچے ضروری نہیں کہ وہی علامات ظاہر کریں جو کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے بڑی عمر کے لوگ ظاہر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حفیظ رحمان کہتے ہیں کہ ان بیمار بچوں کا علاج صرف اسپتال میں ہو سکتا ہے، کیونکہ انہیں جو دوا دی جاتی ہے اس کا تعلق خون سے ہے اور وہ انٹراوینس ہی دی جا سکتی ہے، اس لئے والدین کو چاہیئے کہ وہ بچے میں یہ علامات ظاہر ہونے پر ڈاکٹر سے فوری رجوع کریں تاکہ بچے کا علاج درست اور بر وقت ہو سکے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بچوں کے امراض کے ماہر دونوں ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے بچوں اور بڑوں دونوں کو محفوظ رہنے کی ضرورت ہے اور بچوں کیلئے بھی وہی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی جو بڑے اپنے لئے کرتے ہیں، یعنی ہاتھ دھونا، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنا اور ماسک پہن کر رکھنا وغیرہ۔
ڈاکٹر حفیظ رحمان کہتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے بچوں کا ہے اور اس میں ہمیں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
سرکاری سطح پر بھی بچوں کے اس طرح بیمار ہونے پر تشویش پائی جاتی ہے۔ نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو نے اتوار کے روز نیوز بریفنگ میں یقین دلایا کہ اس صورتِ حال کی پوری چھان بین کی جا رہی ہے تاکہ بچوں کا درست علاج ہو سکے۔
نیو یارک کے میئر بل دی بلاسیو نے بھی اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 38 بچوں میں سے 47 فیصد کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے اور 81 فیصد میں اینٹی باڈیز پائی گئی ہیں۔
میئر نے مزید کہا کہ لگ بھگ 10 لاکھ بچوں کے والدین کو احتیاط کیلئے کہا گیا ہے اور ریجنل انرچمنٹ سنٹرز سے کہا گیا ہے کہ وہ ہینڈ سینیٹائیزرز اور ماسک کے استعمال کو زیادہ سے زیادہ کرنے کیلئے اقدامات کریں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے انفیکشن کے بارے میں معلومات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ یہ بیماری ماہرین کیلئے بھی نئی ہے اور نیویارک میں خاص طور پر یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ ایسی تحقیق کی جائے کہ اس کے نتائج پورے ملک کیلئے کارآمد ہوں۔