رسائی کے لنکس

'والد کی وفات پر میں ماں کے گلے لگ کر رو بھی نہ سکا'


کرونا سے وفات پانے والے لطیف الحسن اپنی اہلیہ کے ہمراہ (فائل فوٹو)
کرونا سے وفات پانے والے لطیف الحسن اپنی اہلیہ کے ہمراہ (فائل فوٹو)

"قرنطینہ کی مدت پوری ہو گئی۔ دو ٹیسٹ بھی منفی آ چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود ابھی تک فاصلہ برقرار ہے۔ اس سے زیادہ کیا ستم ہو گا کہ ابھی تک والد کی وفات پر میں اور امی ایک دوسرے کے گلے سے لگ کر رو بھی نہیں سکے۔"

یہ الفاظ ہیں کراچی کے رہائشی 37 سالہ سید وقار الحسن کے، جن کے والد لطیف الحسن کرونا وائرس کا شکار ہو کر وفات پا گئے اور اسی روز ان میں اور ان کی والدہ شہناز لطیف میں بھی وائرس کی تشخیص ہو گئی۔

حال ہی میں وائس آف امریکہ نے کرونا کا شکار ہونے والے افراد کی تدفین کے عمل پر ایک ڈیجیٹل رپورٹ بنائی۔ جسے دیکھ کر وقار کا غم تازہ ہو گیا کہ وہ بھی اپنے والد کے آخری سفر میں شریک نہ ہو سکے تھے جس کا انہیں شدید ملال ہے۔ وقار نے ہمیں اپنی آپ بیتی سنائی جسے ہم ان کی زبانی یہاں پیش کر رہے ہیں۔

20مارچ کو میرے والد کی طبیعت ناساز ہوئی۔ انھیں ہلکا بخار تھا، پھر نزلہ، زکام، گلا خراب ہوا، جو بظاہر معمول کی بات تھی۔ ہم نے ڈاکٹر کو علامتیں بتا کر اینٹی بائیو ٹکس اور اینٹی الرجی دوائیں دینا شروع کیں۔ لیکن پھر 27 مارچ کو جب وہ ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر لوٹے تو ان کا سانس بہت تیز چل رہا تھا۔ جب وہ لیٹتے تو انھیں سانس لینے میں دشواری پیش آتی۔ یہ کیفیت نمونیا کے مرض جیسی تھی۔

امی نے جب ابو کی یہ حالت دیکھی تو انھوں نے مجھے کہا کہ انھیں اسپتال لے جانا چائیے۔ ان کے لیے رات گزارنا مشکل ہو سکتا ہے۔

ہم انھیں ڈاؤ میڈیکل اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے ان کے کچھ ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ علامات کرونا کی لگ رہی ہیں، ہمیں کچھ اور ٹیسٹ کرنا ہوں گے اور انہیں داخل کر لیا۔ رات ساڑھے نو بجے انہوں نے والد صاحب کو کرونا کے آئی سی وارڈ میں شفٹ کر دیا۔

کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کیسے ہو رہی ہے؟
کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کیسے ہو رہی ہے؟

میرے والد کی عمر 82 سال تھی۔ جب ہم انہیں اسپتال لے کر گئے تو ان کی حالت قدرے بہتر تھی۔ وہ ہوش و حواس میں تھے۔ کرونا کے آئی سی یو میں جانے کے لیے وہ خود بستر سے اٹھ کر وہیل چیئر پر گئے اور ہمیں کچھ ضروری ہدایات بھی دیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے والد کو نہیں دیکھا۔ اس وارڈ میں شفٹ ہونے کے بعد وہ واپس نہیں آ سکے۔

اگلے روز گیارہ بجے ہم اسپتال آئے تو بتایا گیا کہ ان کی طبیعت بہتر ہے۔ والد صاحب کا وارڈ سے پیغام آیا کہ موبائل بھیجو بات کرنی ہے۔ لیکن اس وقت بدقسمتی سے ہمارے پاس ایک ہی موبائل تھا۔ میں فوراً مارکیٹ بھاگا کہ نیا موبائل لوں لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے مارکیٹس بند تھیں۔ مگر میں کہیں نہ کہیں سے نیا موبائل خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔

اسی وقت ڈاکٹر کا فون آیا کہ جلدی سے آ کر یہ فیصلہ کریں کہ انھیں وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنا ہے یا نہیں؟ میں نے اسپتال پہنچ ڈاکٹر کو وینٹی لیٹر کی اجازت دے دی۔ اس کارروائی میں تقریباً دو گھنٹے لگ گئے۔ سہ پہر ساڑھے چار یا پانچ بجے کے لگ بھگ ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ چونکہ ہمارے والد میں کرونا وائرس کی علامات ہیں اور ایک رپورٹ میں خون میں انفیکشن بھی بہت زیادہ ہے اور ان کا کرونا ٹیسٹ بھی ہو چکا ہے، جس کا انتظار ہے۔ اگر وہ نیگیٹو آیا تو انہیں جنرل آئی سی یو میں منتقل کر دیا جائے گا۔ لیکن رپورٹ آنے سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا۔

رات گیارہ بجے میرے بھتیجے نے اسپتال سے رپورٹ وصول کی جو پازیٹو تھی۔ اسے بتایا گیا کہ جو لوگ مریض کے ساتھ آئے تھے یا اس کے ساتھ رہتے ہیں، انہیں آئیسولیشن میں جانا ہو گا۔ اور ان کے کرونا ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔ اس کے بعد ہم نے 14 سے 18 دن آئیسولیشن میں گزارے۔

والد کی تدفین میں ہم شریک نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ ان کی مثبت رپورٹ کے بعد ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ ہمارے ٹیسٹ بھی مثبت ہی آئیں گے۔ ہمارے ٹیسٹ 30 مارچ کو کیے گئے جس کی رپورٹ آنے میں وقت تھا۔ تاہم ہمیں یہ بتا دیا گیا تھا کہ آپ والد کی تدفین میں حصہ نہیں لیں گے اور ان کی تدفین بھی کرونا سے انتقال کرنے والے افراد ہی کی طرح کی جائے گی۔

اسی دوران علاقے کے ہیلتھ آفیسر نے ہمیں فون پر بتایا کہ آپ اور آپ کی والدہ کا کرونا ٹیسٹ مثبت ہے، جب کہ بھتیجے کا ٹیسٹ منفی ہے۔ اور آپ لوگ آئیسولیشن میں چلے جائیں۔ اس کے بعد میں اور میری والدہ 18 دن الگ الگ کمروں میں رہے۔

قرنطینہ میں ماہر نفسیات کی ضرورت کیوں پڑی؟

میں اور میری والدہ آئیسولیشن کے دوران بہت ذہنی دباؤ میں رہے کیونکہ والد کی وفات کا صدمہ تھا۔ اور جب یہ سنا کہ ہمیں بھی کرونا ہو گیا ہے تو ایسا لگا کہ سب ختم ہو چکا ہے۔

میں اگر اپنی بات کروں تو مجھے بار بار اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوتا تھا۔ میں دباؤ اور خوف کا شکار ہو چکا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ آج رات سونے کے بعد صبح نہیں اٹھ پاؤں گا۔ بار بار والد کی وہ حالت نظروں کے سامنے آ جاتی، جب ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ بس لگتا تھا کہ ہمارا بھی یہی حال ہو گا۔ اس کیفیت میں میں نے تین روز گزارے اور پھر اپنے کزن کو کال کی کہ میرے لیے کلینکل سائیکالوجسٹ کا سیشن بک کروا دو۔

ماہر نفسیات نے مجھ سے بات کی اور تین چار بہت اہم باتیں سمجھائیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ آپ حال میں رہیں۔ نہ تو ماضی کو سوچیں، نہ مستقبل کا۔ اگر ایسی کوئی سوچ آئے تو خود کو مصروف کریں۔ چہل قدمی شروع کر دیں۔ کوئی مشغلہ جو آپ کو پسند ہو وہ شروع کر دیں، یا کوئی مووی دیکھ لیں، چاہے دل نہ بھی چاہے، لیکن یہ آپ کا دھیان بٹانے کو کافی ہو گا۔

میں نے محسوس کیا کہ کرونا وائرس کا خوف بیماری سے بڑھ کر ہے۔ اس قرنطینہ کے دوران ہمیں کوئی دوا نہیں کھانی تھی، بس اپنی غذا کا خیال رکھنا تھا تاکہ قوت مدافعت بہتر رہے، لیکن جو ذہنی دباؤ تھا، وہ اس بیماری سے کہیں بڑا تھا۔

قرنطینہ کے ایام کیسے گزارے؟

نفسیاتی دباؤ بہت شدید تھا۔ ایک تو والد کے کھونے کا غم اور پھر یہ بیماری۔ گھر کے ایک کمرے میں، میں تھا۔ دوسرے میں والدہ اور ڈرائنگ روم میں میرا بھتیجا تھا، جو ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن اس کا ٹیسٹ منفی تھا اور اس کا خیال رکھنا بھی ضروری تھا کہ وہ اس وائرس کا شکار نہ ہو، تو احتیاط مزید سخت تھی۔

گھر کے درمیان میں لاوئج اور کچن تھا، جہاں ایک وقت میں کسی ایک ہی شخص کا گزر ہو سکتا تھا۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ ہم اپنے اپنے کمروں کے دروازوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کیا کرتے تھے۔ موبائل اسپیکر پر قرآن کی تلاوت سن لیا کرتے تھے یا ٹی وی لگا لیا کرتے تھے۔

10 اپریل کو ہمارا دوسرا ٹیسٹ ہوا جو منفی تھا۔ یہ رپورٹ ڈاؤ میڈیکل کی تھی جو میرے پاس آن لائن آ گئی تھی۔ اس روز میں بہت رویا۔ خدا کا شکر بھی ادا کیا اور ابو کو بہت شدت سے یاد کیا۔ اس کے بعد 13 اپریل کو دوبارہ ٹیسٹ ہوئے۔ ہمیں 15 اپریل کو بتایا گیا کہ آپ کا ٹیسٹ منفی ہے۔ اب آپ اس وائرس سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔

قرنطینہ کے دوران محکمہ صحت کا رویہ کیسا رہا؟

والد کے انتقال سے لے کر میرے اور میری والدہ کے ٹیسٹ مثبت آنے کے ایام کے دوران سندھ حکومت نے جو بھی اقدامات کئے، وہ قابل ستائش ہیں۔

جب ہم قرنطینہ میں تھے تو محکمہ صحت کی ٹیم ہم سے مسلسل رابطے میں رہی۔ ہیلتھ آفیسر نے بہت ساتھ دیا۔ ہم نے جب چاہا فون کیا۔ انھوں نے ہمیں تسلی دی۔ ٹیسٹ کے لئے آنے والی انڈس اسپتال کی چغتائی لیب کی ٹیموں نے بھی بہت تعاون کیا۔ یہاں تک کہ کچھ این جی اوز کی کالز آئیں کہ اگر آپ کو گھر میں کسی بھی قسم کے راشن کی ضرورت ہے تو ہم حاضر ہیں۔

ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود کیا احتیاط جاری ہے؟

اول تو گھر سے باہر کہیں جانا نہیں ہوتا اور اگر کوئی چیز باہر سے آئے جیسے کھانے پینے کی کوئی چیز یا راشن، تو ہم اس کے پیکٹ تک ڈس ایفیکٹ کرتے ہیں۔ گھر کو بھی بار بار ڈس انفیکٹ کر رہے ہیں۔ گھر میں استعمال ہونے والی چیزوں کے ڈبے یا کاغذ یا استعمال شدہ ماسک اور دستانے تک کو ہم ڈس انفیکٹ کر کے سوئیپر کو دیتے ہیں کہ کہیں اسے وائرس نہ لگ جائے۔

والد کے انتقال کی تعزیت کے لئے آنے والے رشتے داروں کو میں نے سختی سے منع کر دیا ہے کیونکہ کرونا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ جو ہم پر گزری ہے وہ کسی اور کے ساتھ بھی پیش آئے۔ اب بھی گھر کے افراد میں چھ سے دس فٹ کا فاصلہ رکھا جاتا ہے۔ ایک ساتھ بیٹھ کر کھایا نہیں جاتا۔ برتن بھی علیحدہ ہیں اور سب اپنا کھانا خود گرم کرتے ہیں اور اکیلے کھاتے ہیں۔ باہر جانا انتہائی کم ہے، لیکن ایک دو بار مجھے جانا پڑا تو میں نے ربڑ کے دستانے پہنے، دو ماسک لگائے۔ سن گلاسز کا استعمال کیا۔ سینی ٹائزر ساتھ رکھا۔ گھر آنے پر جوتے میں باہر اتارتا ہوں۔ دستانے میں باہر اتار کر اسے ضائع کرتا ہوں اور آ کر ہاتھ دھوتا ہوں۔

'والد کے آخری سفر میں شریک نہ ہونے کا دکھ تمام عمر رہے گا'

میرے والد 82 برس کے تھے اور ریٹائر تھے۔ ان کی وفات سے کچھ روز قبل ہی ہم نئے گھر میں شفٹ ہوئے تھے جو پچھلے کئی ماہ سے وہ خود بنوا رہے تھے اور اس کی قانونی دستاویزات کے معاملات کی بھاگ دوڑ بھی وہ خود کرتے تھے۔

اگلے ماہ میرے والد اور والدہ کی شادی کی 49 ویں سالگرہ تھی۔ جب والد کا انتقال ہوا تو ان کی تدفین میں شرکت نہ ہو سکی۔ تدفین بھی صبح چار بجے ہوئی، جس میں ایک کزن شریک ہوا، جو قبرستان کے دروازے پر کھڑا رہا اور وہی سے اس نے فاتحہ پڑھی اور دعا کی۔

مجھے یہ دکھ عمر بھر رہے گا کہ میں اپنے والد کے آخری سفر میں شریک نہ ہو سکا۔ وہ جو ہم سے موبائل پر بات کرنا چاہتے تھے، وہ بھی نہ ہو سکی۔ پتا نہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے تھے۔ وہ چپ چاپ چلے گئے اور ہم ان کا آخری دیدار بھی نہ کر سکے۔

XS
SM
MD
LG