رسائی کے لنکس

ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیموں کی ایک بار پھر لاک ڈاون میں نرمی کی مخالفت


Pakistan Medical Association
Pakistan Medical Association

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے ایک بار پھر حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لئےلگائے گئے لاک ڈاون کو بتدریج نرم کرنے کی مخالفت کر دی ہے۔ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ لاک ڈاون کو نرم کرنے سے وبا کے پھیلاو کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔

اخباری کانفرنس سے خطاب کوتے ہوئے، 'پی ایم اے' کے مرکزی صدر، ڈاکٹر اکرام تونیو نے کہا ہے کہ ''ان دنوں کوئی بھی شخص بھوک کے باعث نہیں مرا۔ اگر مرا ہے تو وہ کرونا وائرس یا پھر کسی دوسری بیماری کے باعث یا طبعی موت کی وجہ سے''۔

انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کا پہلے بھی یہی مطالبہ رہا ہے کہ لاک ڈاون کو بہتر سے بہتر انداز میں نافذ کیا جائے اور اب بھی یہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاون کو نرم کرنے سے کرونا وائرس کی وبا مزید پھیل سکتی ہے۔ اس لئے، بقول ان کے، اس سے اجتناب کیا جائے۔

ڈاکٹر اکرام کا کہنا تھا کہ اس مرض سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن، صحت کے تحفظ اور مرض کے پھیلاو سے بچاو کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بے حد ضروری ہے۔

ڈاکٹروں کے نمائندوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں جو نرمی کی باتیں کی جا رہی ہیں اس سے یہ وبا مزید پھیلے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز اپنی قوم کے لیے یا مریضوں کے لیے سنجیدہ ہیں اور ضمیر کی بات کرنے میں کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ پی ایم اے کے صدر نے مزید کہا کہ اگر موجودہ صورتحال ہی سے مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی تو خوفناک صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔

سیکریٹری جنرل پی ایم اے، ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے تحت بھی کرونا وائرس کی وبا سے بچاو کے لئے لاک ڈاون کو مستقل اور بہتر بنانا ازحد ضروری ہے۔ اور اگر لاک ڈاون کو موثر نہ بنایا جائے تو کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر اس وقت صورتحال تشویشناک ہے اور ملک بھر میں کیسز کی تعداد 26 ہزار سے زائد ہوچکے ہیں تو لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کیا حال ہوگا؟ ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے لاک ڈاون میں نرمی کے اعلانات سے ڈاکٹروں میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔

صورتحال کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے، انہوں نے اس پر شبہات کا اظہار کیا کہ لاک ڈاون کو نرم کرنے کے ساتھ 'ایس او پیز' پر سختی سے عمل کرایا جاسکے گا۔

ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ حکومت نے احتیاطی اقدامات کرنے کی تمام تر ذمہ داری عوام پر ڈال دی ہے۔ عوام کو 'ایس او پیز' پر عمل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوگا اور صحت کے شعبے صاف نظر آنے والی فوری خامیوں کو دور کرنے کے لئے ابھی سے کام کرنا شروع کرنا ہوگا اور ہسپتالوں کو سہولیات دینا ہونگی۔

انہوں نے کہا کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں صرف 63 وینٹی لیٹرز ہیں، جبکہ بلوچستان بھر میں ان کی تعداد 40 ہے۔ ایسے میں صوبہ بلوچستان کی حالت سندھ سے بھی زیادہ خوفناک نظر آتی ہے۔

ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک بھر میں 800 ڈاکٹرز کرونا سے متاثر ہونے کے بعد آئسولیشن میں ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت لاک ڈاون میں نرمی کے اعلانات پر نظرثانی کرتے ہوئے صورتحال کے پیش نظر لاک ڈاون کے دورانئے میں مزید اضافہ کرے۔

سندھ: ایک ہی روز میں ایک ہزار سے زائد کیسز، کل کیسز کی تعداد10 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ سندھ میں پہلی بار کرونا وبا سے 24 گھنٹوں میں 1080 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ سندھ میں گذشتہ 24 گھنٹوں نے دوران مزید 1080 کورونا کیسز میں سے 583 کیسز کراچی میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صورتحال کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق، صوبے میں جمعرات کے روز 5498 ٹیسٹ کئے گئے جس میں سے 20 فیصد یعنی 1080 کیسز مثبت آئے ہیں۔ اس طرح صوبہ سندھ میں کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 10771 ہوگئی ہے، جبکہ جمعرات کے روز 4 مریض انتقال کرگئے، جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد 180 ہوگئی ہے۔

صوبے میں ایک روز کے دوران مزید 80 مریض صحت یاب ہو کر گھروں کو چلے گئے۔ اس طرح صحتیاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 2020 ہوگئی ہے، جو مجموعی مریضوں کا 18.8 فیصد بنتا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق، صوبے میں اس وقت 8571 کرونا مریض زیر علاج ہیں۔ ان میں سے 7432 گھروں میں، 609 آئیسولیشن مراکز اور 530 اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ان میں سے 101 مریضوں کی حالت تشویشناک اور 23 وینٹی لیٹرز پر ہیں۔

ضلع خیرپور کے پیر جو گوٹھ میں ایک ہی دن میں 246 نئے کیسز رپورٹ: ضلع خیرپور کے پیر جو گوٹھ میں کرونا کی وبا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG