امریکی وزیرِ خارجہ نے برما کے تین روزہ دورے کے اختتام پر اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کو مزید جمہوری اصلاحات کے نفاذ میں مدد دینے کو تیار ہے۔
اس سے قبل سیکرٹری کلنٹن نے اپنے تاریخی دورے کے آخری روز جمعہ کو برما کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی سے رنگون میں تفصیلی ملاقات کی۔
'نوبیل' انعام یافتہ سوچی کی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقات کے بعد سیکرٹری کلنٹن نے گھر کے برآمدے میں صحافیوں سے گفتگو کی جس کے دوران انہوں نے حزبِ اختلاف کی راہنما کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال رکھے تھے۔
واضح رہے کہ سوچی نے گزشتہ دو دہائیوں پہ محیط اپنی نظر بندی کا زیادہ تر وقت اسی رہائش گاہ میں گزارا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں امریکی وزیرِ خارجہ نے اعلان کیا کہ ان کا ملک بارودی سرنگوں کا نشانہ بننے والے افراد کی اعانت، مائیکرو فنانس کے منصوبوں اور صحتِ عامہ کی سہولیات کی بہتری کے لیے برما کو 12 لاکھ ڈالرز کی امداد فراہم کرے گا۔
وزیر خارجہ کلنٹن نے آنگ سان سوچی کی ’’ثابت قدم اور شفاف‘‘ قیادت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ، برما کو دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔ انھوں نے سوچی کو "امید کی ایک کرن" قرار دیا۔
اس موقع پہ صحافیوں سے گفتگو میں آنگ سان سوچی کا کہنا تھا کہ امریکہ جس طرح برما کے ساتھ معاملات کر رہا ہے اس پر انہیں خوشی ہے اور ان کے خیال میں اس طرح جمہوریت کی طرف سفر آسان ہوجائے گا۔
پریس کانفرنس کے دوران دونوں راہنماؤں نے برما کی حکومت پر عائد سخت عالمی پابندیوں کا ذکر نہیں کیا۔
اس سے قبل جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ نے دارالحکومت نیپی دو کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ برما کی حکومت کی طرف سے سیاسی اصلاحات کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا بغور جائزہ لیا جائے گا۔
انھوں نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ مصالحتی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے مزید سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور اقلیتی گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں بند کردے۔
سیکرٹری کلنٹن کا مزید کہنا تھا کہ برما جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پر بین الاقوامی اتفاق رائے کا احترام کرتے ہوئے شمالی کوریا سے اپنے ’’ناجائز‘‘ فوجی تعلقات ختم کرے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے ان خیالات کا اظہار عشروں طویل فوجی آمریت کے خاتمے کے بعد رواں برس مارچ میں حکومت سنبھالنے والے برما کے صدر تھان سین کے ساتھ اپنی تاریخی ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا۔
اس موقع پر سابق فوجی جنرل، صدر سین نے امریکی وزیرِ خارجہ کے دورے کو امریکہ اور برما کے باہمی تعلقات کے نئے باب کا آغاز قرار دیا۔
واضح رہے کہ ہلری کلنٹن گزشتہ 50 برسوں سے زائد عرصے کے دوران برما کا دورہ کرنے والی امریکہ کی پہلی وزیرِ خارجہ اور اعلیٰ ترین امریکی عہدیدار ہیں۔
اس سے قبل اپنے ایک بیان میں سیکرٹری کلنٹن نے زور دیا تھا کہ برمی حکومت کی جانب سے جمہوریت کی طرف ٹھوس قدم اٹھانے تک برما پر عائد پابندیاں نہیں اٹھائی جائیں گی۔