چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے امریکہ پر چین اور اس کے پڑوسی ایشیائی ممالک کے مابین تنازعات کو ہوا دینے کی کوششیں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر نگرانی’’گلوبل ٹائمز‘‘نامی اخبار نے اپنے جمعرات کے شمارے میں ایک ماہر کا تبصرہ شائع کیا ہے جو امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا کے اُس تحریری بیان کے بارے میں ہے جو کانگریس کے ایک پینل کو پیش کیا گیا۔ یہ تبصرہ اس امرکو مدنظر رکھ کر کیا گیاہے کہ پنیٹا کو امریکہ کا آئندہ وزیر دفاع نامزد کیا جاچکا ہے۔
خبر رساں ایجنسی 'بلوم برگ' کے مطابق اپنے بیان میں سی آئی اے کے سربراہ نے کہا ہے کہ بظاہر چین اپنی سرحدوں پر 'مختصر دورانیہ اور شدید نوعیت کے تنازعات کا مقابلہ کرنے اور ان میں فتح پانے " کی صلاحیت کے حصول میں مصروف ہے۔
اخبار کے مطابق مقامی ماہر کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے سربراہ کے مذکورہ بیان کو چین اور اس کے پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کو ہوا دینے کی ایک کوشش کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
چین کی 'رینمن یونیورسٹی' میں واقع 'امریکن اسٹڈی سینٹر' کے ڈائریکٹر شی ین ہونگ نے اخبار کو بتایا کہ چین کبھی بھی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کو ہوا نہیں دے گا۔
تاہم اس تبصرہ کے برعکس جنوبی بحیرہ چین میں چینی فوجی کشتیوں کی حالیہ کارروائیوں کے پر چین کی جانب سے ویتنام اور فلپائن کے ساتھ متنازع جارحانہ سفارت کاری کا عمل جاری ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آخر میں چینی فوجی کشتیوں نے ویتنام کے مخصوص معاشی زون میں تیل کے ذخائر کا سروے کرنے والے ایک ویتنامی جہاز کی تاریں کاٹ دی تھیں۔ حالیہ دنوں میں فلپائن کی جانب سے بھی چین پر اپنی سمندری حدود میں مداخلت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ برس بھی چین اور جاپان کے درمیان مشرقی بحیرہ چین میں ہونے والے ایک واقعہ پر تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔
رواں ہفتے چین کے ایک سینئر فوجی کمانڈر نے پہلی بار سرکاری سطح پر اس بات کی تصدیق کی تھی کہ چین بہت جلد اپنا پہلا طیارہ بردار بحری جہاز متعارف کرانے جارہا ہے۔
کانگریس کی کمیٹی کو بھیجے گئے اپنے تحریری بیان میں سی آئی اے کے سربراہ نے کہا تھا کہ چین کی جانب سے اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ ویتنام کے حوالے سے مستقبل میں کسی ممکنہ فوجی کاروائی اور اس صورت میں ممکنہ امریکی مداخلت کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جارہا ہے۔
پنیٹا کے بقول امریکہ کو چین کی فوجی صلاحیت میں اضافے پر کڑی نگاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ایسی راہیں بھی تلاش کرنی چاہئیں جن سے خطے میں امن برقرار رکھنے، استحکام میں اضافے اور کسی ممکنہ مہم جوئی کے امکان کو کم سے کم کرنے میں مدد مل سکے۔