ویتنام میں احتجاجی مظاہرے شاذو نادر ہی ہوتے ہیں لیکن اتوار کو، سینکڑوں لو گ چینی سفارت خانے کے سامنے جمع ہوئے اور انھوں نے ساؤتھ چائینا سی میں چین کی مبینہ جارحیت کے خلاف احتجاج کیا۔ ویتنام کا کہنا ہے کہ ایک چینی بحری جہاز نے ویتنام کے تیل کا سروے کرنے والے ایک بحری جہاز کے پانی میں ڈوبے ہوئے کیبل کو جان بوجھ کر کاٹ دیا۔ فلپائن نے بھی اس سمندر میں نئے علاقائی تنازعات کی اطلاع دی ہے ۔ اس نے الزام لگایا ہے کہ چین تعمیر ی سامان پہنچا رہا ہے اور مونگے کے جزیروں پر جو فلپائن کی ملکیت ہیں، فوجی چوکیاں تعمیر کر رہا ہے ۔ چین نے اپنے اقدامات کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدامات بالکل جائز ہیں۔
اتوار کو سنگاپور میں ایک علاقائی اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے، چین کے وزیرِ دفاع، Liang Guanglie نے دعویٰ کیا کہ ویتنام اور فلپائن کے ساتھ جو اختلافات پیدا ہو گئے تھے ، ان پر کنٹرول کر لیا گیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ساؤتھ چائینا سی میں ہمیشہ جہاز رانی کی آزادی رہی ہے ۔ یہ کسی ایک ملک کی ملکیت نہیں ہے۔علاقے میں اب مجموعی صورت حال مستحکم ہے ۔
واشنگٹن میں ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے تجزیہ کار ڈین چینگ کہتے ہیں کہ چین کسی پر گولیاں تو نہیں چلا رہا ہے، لیکن اس کی کارروائیاں اشتعال انگیز ہیں اور ان سے انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ پیدا ہو تا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین اس پورے علاقے پر اپنا حق جتا رہا ہے اور اسے اس کی پرواہ نہیں کہ دوسروں پر اس کا کیا اثر پڑ ے گا۔
دی ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز یا آسیان چین کےساتھ مِل کر ساؤتھ چائینا سی کے بارے میں ایک ضابطۂ اخلاق پر سمجھوتے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اتوار کے روز اسی کانفرنس میں ویتنام کے نائب وزیرِ دفاع Ngyuen Chi Vinh نے کہا کہ چین کا تعاون انتہائی اہم ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ویتنام میں ہماری پارٹی اور ہماری مملکت کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ہم ہر قیمت پر اپنی خود مختاری کی حفاظت کریں گے ۔
ساؤتھ چائینا سی ایک اہم آبی گذرگا ہ ہے اور خیال ہے کہ اس میں تیل اور گیس کے بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ برونائی، ملا ئیشیا ، چین ، فلپائن، اور ویتنام سمیت بہت سے ملک اس کے دعوے دار ہیں۔ امریکہ نے چین اور اس کے جنوب مشرقی ایشیا کے ہمسایہ ملکوں کے درمیان علاقائی تنازعات طے کرنے میں مدد کی پیشکش کی ہے ۔ گذشتہ ہفتے واشنگٹن میں تقریر کرتے ہوئے، امریکی محکمۂ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری کرٹ کیمپبل نے کہا کہ امریکہ اس تنازعے کے فریقوں کے درمیان مذاکرات کے فروغ کی کوششیں کرتا رہا ہے۔
’’ہم ان حالات میں تشدد یا دھمکیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ بات چیت کے طریقۂ کار پر عمل شروع کیا جائے۔ ہم بہت سے ملکوں کے ساتھ جن کا تعلق ساؤتھ چائینا سی سے ہے، مسلسل اور پرائیویٹ طریقے سے رابطے میں رہتے ہیں اور ہم آئندہ بھی اسی طریقے پر عمل جاری رکھیں گے۔‘‘
چین کی ترجیح یہ رہی ہے کہ ساؤتھ چائینا سی کے دوسرے دعوے دار ملکوں کے ساتھ تنازعات کے بارے میں الگ الگ بات کی جائے ۔ اور اب تک ایسا لگتا تھا کہ چین ساؤتھ چائینا سیز کے علاقے پر اپنے دعوؤں پر زیادہ زور نہیں دے رہا ہے ۔
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے تجزیہ کارڈین چینگ کہتے ہیں کہ کشیدگی میں حالیہ اضافہ اس بات کی علامت ہو سکتا ہے کہ چین ویتنام یا امریکہ کے ممکنہ رد عمل کو آزما رہا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کے اقدامات ، چین اور امریکہ کے درمیان کئی سربراہ ملاقاتوں کے بعد کیے گئے ہیں۔ ان میں صدر ہوجن تاؤ اور براک اوباما کے درمیان جنوری کی ملاقات بھی شامل ہے۔
’’یہ ایک ٹیسٹ ہو سکتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ ہم نے یہ سربراہ ملاقاتیں کر لی ہیں اور کہا ہے کہ ہم بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ کیا آپ ایسے معاملات میں جن کے بارے میں چینیوں کا خیال ہے کہ وہ ان کے علاقائی حقوق ہیں، جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی حمایت میں بول کر اچھے تعلقات کے امکانات کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟‘‘
چینگ کہتے ہیں کہ کشیدگی میں اضافے کا تعلق چین کی قیادت میں 2012 میں ہونے والی تبدیلی سے بھی ہو سکتا ہے ۔ چین کے صدر ہوجن تاؤ اگلے سال اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں گے۔ چینگ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ نئی حکومت اور دستبردار ہونے والی حکومت دونوں یہ محسوس کرتی ہوں کہ ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اس نکتے پر زور دیں کہ یہ چین کا علاقہ ہے ۔
گذشتہ ہفتے کے دوران، امریکی عہدے داروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایشیا اور خاص طور سے جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ امریکہ کی وابستگی قائم ہے اور وہ اس علاقے میں چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے ۔ چین نے بھی کہا کہ وہ بھی علاقے میں تنازعات کو پُر امن طریقے سے حل کرنا چاتا ہے ۔ تا ہم، ہنوئی کی سڑکوں پر احتجاج کرنے والوں کے ہجوم سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملے کا حل ابھی بہت دور ہے ۔