پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں کچہری کے باہر خودکش دھماکے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 16 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے 25 سے زائد افراد میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ زخمی ہونے والوں میں بھی پولیس اہلکار شامل ہیں۔
چارسدہ کے علاقے شبقدر میں پیر کو جب یہ دھماکا ہوا تو اُس وقت کچہری میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل سعید وزیر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ دھماکا خودکش حملہ آور کی کارروائی تھی اور وہ کچہری میں داخل ہونا چاہتا تھا لیکن کچہری کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کی طرف سے روکنے پر اُس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔
’’ایک انچارج کے علاوہ 18 پولیس اہلکار اس علاقے کی سکیورٹی پر مامور تھے، خودکش حملہ آور یہاں داخل ہوا۔۔۔۔ اس کے پاس اسلحہ تھا اس نے فائر کیا ہے، جانتے ہوئے بھی یہ خود کش حملہ آور ہے اور وہ فائر کر رہا ہے۔۔۔ اس کے باوجود بھی (پولیس اہلکار) اس کے اوپر چھپٹا ہے اور ان کی اس ہمت کی وجہ سے اب یہ صورت حال ہے کہ ہمارے ججز محفوظ ہیں۔‘‘
حکام کے مطابق اگر خودکش حملہ آور کچہری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا تو بڑی تباہی ہو سکتی تھی۔
دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر ممتاز قادری دی جانے والی سزائے موت کا ردعمل ہے۔
شبقدر کا علاقہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی سے متصل ہے اور ماضی میں بھی یہاں دہشت گرد حملے ہوتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جنوری میں چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے ایک مہلک حملہ کر کے طالب علموں سمیت 21 افراد کو ہلاک اور 20 سے زائد کو زخمی کر دیا تھا۔
کئی گھنٹوں کی کارروائی کے بعد چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے نے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
پاکستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے باعث ملک میں ماضی کی نسبت دہشت گرد واقعات میں نمایاں کمی تو دیکھنے میں آئی لیکن اب بھی شدت پسند وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف حصوں میں مہلک کارروائیاں کر رہے ہیں جو حکام کے بقول سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔
گزشتہ ماہ ہی پاکستانی فوج کے سربراہ نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن "ضرب عضب" کا آخری مرحلہ شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے شمالی وزیرستان میں 15 جون 2014ء کو بھرپور فوجی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا اور اس میں اب تک 3400 ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ان کے سینکڑوں ٹھکانوں اور کمانڈ و کنٹرول مراکز کو تباہ کرنے کا بتایا گیا ہے۔