پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں تشدد کے دو مختلف واقعات میں خاصہ دار فورس کے نو اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ حملے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مہمند ایجنسی کے تحصیل یکہ غنڈ اور تحصیل پنڈیالی میں خاصا دار فورس پر کیے گئے۔
مقامی حکام کے مطابق یکہ غنڈ سب ڈویژن میں کڑپا کے علاقے میں شدت پسندوں نے خاصہ دار فورس کی ایک چیک پوسٹ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔
حملے میں سات اہلکار ہلاک ہو گئے جب کہ شدت پسندوں جائے وقوع سے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
مہمند ہی کے علاقے دروازگئی میں شمسی توانائی سے چلنے والے ایک ٹیوب ویل کی حفاظت پر مامور دو خاصہ داروں کو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔
ہلاک ہونے والوں کی لاشیں غلنئی کے اسپتال منتقل کر دی گئی ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے ’جماعت الاحرار‘ نے ایک دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ اسی علاقے میں اس گروہ نے ایک روز قبل بھی حملہ کیا تھا۔
سکیورٹی فورسز نے حملوں کی تحقیقات شروع کر کے علاقے میں تلاش کی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی قبائلی رہنما نثار مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانے ہی کی صورت میں امن کے قیام کا حصول ممکن ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک عرصے سے شدت پسند اور جرائم پیشہ عناصر نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی تھیں جن کے خلاف سکیورٹی فورسز وقتاً فوقتاً کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔
لیکن 2014ء کے وسط سے سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان اور خیبر میں شروع کی گئی بھرپور کارروائیوں کے بعد ہزاروں ملکی و غیر ملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک اور ان کے سیکڑوں ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا بتایا ہے۔
لیکن حکام کے بقول شمالی وزیرستان اور خیبر سے فرار ہو کر بہت سے شدت پسند ملحقہ علاقوں یا سرحد پار افغانستان میں روپوش ہو گئے ہیں۔
مہمند ایجنسی کی سرحد خیبر پختنونخواہ کے ضلع چارسدہ سے بھی ملتی ہے اور شدت پسند اس علاقے میں بھی کارروائیاں کر چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں طلبا اور اساتذہ سمیت 22 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔