ایسے میں جب جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے سلسلے میں ترکی میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، وہاں کے کچھ مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں آیا حکمران 'اے کیو پی' پارٹی کے خلاف کیوں اقدام نہیں کیا جا رہا، چونکہ مبینہ طور پر انقلاب کی کوشش کرنے والے امریکہ میں مقیم عالم دین فتح اللہ گولن کا کسی وقت پارٹی اور صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ یارانہ تھا۔
جمعے کے روز 189ججوں اور وکلائے استغاثہ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے، جن تمام پر گولن کے ساتھ روابط کا الزام ہے۔ اب تک 30000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق فوج، تعلیمی نظام اور عدالت سے ہے۔
صدر اردوان نے سخت کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ گولن کے حامی کئی دہائیوں سے حکومت کے تمام شعبوں میں موجود ہیں، اور اس قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُنھوں نے اقتدار پر قابض ہونے کی کوشش کی۔ گولن انقلاب کی کوشش میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔
تاہم ، حزب مخالف سیاسی جماعتیں اب کھل کر پوچھنے لگی ہیں آیا اردوان کی اے کے پی پارٹی اِس چھان بین میں شامل کیوں نہیں ہے، جب کہ ماضی میں پارٹی کے گولن کے ساتھ قریبی مراسم رہے ہیں۔
سیلن سائک بوک، اہم مخالف پارٹی، 'ری پبیلکن پیپلز پارٹی' کی معاون سربراہ اور ترجمان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گولن کے حامی حکمراں پارٹی کے اندر کیسے داخل ہوئے، جس بات پر دھیان نہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ بغاوت کی تفتیش کس حد تک درست ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ''ہم نہیں دیکھتے کہ اے کیو پی اپنے آپ کو تنظیمی طور پر صاف کرنے کی کوئی کوشش کر رہی ہو''۔
صدر اردوان نے یہ بات نہیں چھپائی کہ کسی وقت گولن اُن کے قریبی اتحادی تھے۔ مشہور ہے کہ ایک بار اُنھوں نے کہا تھا کہ ''ہم نے آپ کی خواہش کے مطابق سارے چیزیں کر دی ہیں''۔
اُن کے دور اقتدار کے اوائل میں، اردوان نے ملک میں گولن کے حامیوں کے طاقتور نیٹ ورک کو مضبوط سیکولر فوج کی راہ روکنے کے لیے ایک کارآمد ہتھیار قرار دیا تھا، جو اردوان کی اسلامی تعلیمات کی دشمن ہے۔
سنان الجن برسلز میں 'کارنیگی یورپ' کے وزٹنگ اسکالر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''اردوان نے اے کے پی اور گولن کے حامیوں کے آپسی طویل مدتی اتحاد کو قبول کیا تھا۔ لیکن، وقت آگیا ہے کہ تفتیش میں اے کے پارٹی کے اپنے ارکان کو بھی شاملِ تفتیش کیا جائے، جنھوں نے داخلی اور بیرونی طور پر گولن کے ساتھیوں کی حمایت جاری رکھی ہے''۔