دو روز قبل نظر بندی سے رہائی پانے والی برما کی جمہوریت پسند سیاست دان آنگ سان سوچی نے برما کے فوجی حکمرانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دو دہائیوں تک نظر بند رہنے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے وائس آف امریکہ کو دئیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا وہ اور ان کے حمایتی فوجی حکمرانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں چاہتے ۔ ‘ہم امیدرکھتے ہیں کہ برما کے حکمران بھی یہ سمجھتے ہیں کہ آپس کے جھگڑے عوام کے مسائل حل نہیں کریں گے’۔
حکا م نے ہفتے کو جب 65سالہ آنگ سان سوچی کو رہا کیا تو ان کے گھر کے باہر عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اتوار کو اپنی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکرسی کے ہیڈکواٹر میں پارٹی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے جمہوریت کی بنیاد ہے ۔
ٹیلی فون پر انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ ملک کے فوجی حکمرانوں کوآمادہ کرنے کی کوشش کریں گی کہ ہر ایک کے مفاد کی خاطر مفاہمت کو راستہ اپنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یقین رکھتی ہیں کہ اگر دونوں فریق راستہ تلاش کرنے کی خواہش رکھتے ہوں تو راستہ نکل سکتا ہے۔ آنگ سان سوچی نے کہا کہ وہ ممکنات پر کام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ حکومت اور پوری دنیا میں لوگوں پر زور دیں گی کہ وہ مل کر کام کرنے کے لئے کوئی راستہ نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری برما کے لئے بہت سے کام کر سکتی ہے۔ تاہم وہ کام کیا ہیں انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔
آنگ سان سوچی نے برما میں گزشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات کے بارے میں کہا کہ ان انتخابات کے شفاف ہونے کے بارے میں کئی سوالات ہیں اور انہوں نے پارٹی کے اندر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس معاملے پر تحقیق کر کے جلد ایک رپورٹ شائع کرے گی۔