انسانی حقوق کی تنظیموں کاکہناہے کہ برما کی انسین جیل میں گذشتہ ہفتے چند خواتین کی جانب سے شروع کی جانے والی بھوک ہڑتال میں اب 22 سیاسی قیدی بھی شریک ہوگئے ہیں۔
تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال نئی حکومت کی جانب سے قیدیوں کی معافی کے اس اعلان کے خلاف ہوئی ہےجس کی بڑے پیمانے پرتشہیر کی گئی تھی۔ مگر اس کے نتیجے میں لگ بھگ 22 سو سیاسی قیدیوں میں سے صرف 47 کو رہائی ملی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہاہے کہ بھوک ہڑتالیوں نے اپنے مطالبات کی فہرست جاری کی ہے جس میں خوراک کامعیار بہتر بنانے، صحت کی سہولتوں میں اضافے اور ملاقات کے حقوق شامل ہیں۔
قیدیو ں کی ہڑتال کی سب سے پہلی اطلاع، تھائی لینڈ میں قائم برما کے سیاسی قیدیوں کے حقوق کی ایک تنظیم نے دی تھی۔ برمیوں کے حقوق سے متعلق واشنگٹن میں قائم ایک اور تنظیم نے پیر کے روز عالمی برداری سے اپیل کی کہ وہ بھوک ہڑتال کے مسئلے پر زیادہ توجہ دے۔
سیاسی قیدیوں کی ہڑتال کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی آنگ ساں سوچی سمیت آل برما اسٹوڈنٹ یونینز، 88 جنریشن اسٹوڈنٹس گروپ اور 2007ء میں احتجاج منظم کرنے والی بھکشوؤں تنظیم شامل ہے۔
پچھلے ہفتے برما کی حکومت نےعام معافی کے ایک پروگرام کے تحت ایسے قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا تھاجن کی سزا ایک سال سے کم باقی رہ گئی تھی۔ جس کا فائدہ 14 ہزار قیدیوں کو ہوا۔
جب کہ سیاسی قیدی اس رعائت سے فائدہ نہیں اٹھاسکے کیونکہ ان کی اکثریت طویل معیاد کی سزائیں کاٹ رہی ہے۔