برما کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ حکومت بدھ سے 6,000 سے زائد قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کر دے گی۔
منگل کو ایک مختصر اعلان میں کہا گیا کہ قیدیوں کو اُن کے طرز عمل کی وجہ سے رہا کیا جا رہا ہے۔ البتہ یہ واضح کہ پہلی کھیپ میں کتنے افراد رہا کیے جا رہے ہیں اور آیا اُن میں برما کے 2,000 سے زائد سیاسی قیدیوں میں سے کوئی شامل ہے یا نہیں۔
برما کا موقف رہا ہے کوئی شخص بھی سیاسی بنیادوں پر حراست میں نہیں ہے۔
لیکن سرکاری عہدے داروں نے غیر ملکی سفارت کاروں کو نجی حیثیت میں بتایا ہے کہ رواں ہفتے کئی سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
اس سے قبل حکومت کے نامزد کردہ انسانی حقوق کمیشن نے صدر تھین سین سے کہا تھا کہ سیاسی بنیادوں پر زیر حراست افراد یا ’ضمیر کے قیدیوں‘ کو رہا کیا جائے۔
یہ بات منگل کو سرکاری ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ایک کھلے خط میں کہی گئی ہے، جس کے بعد ملک میں سیاسی قیدیوں کی جلد رہائی کے امکانات بظاہر روشن ہو گئے۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین وِن مرا نے خط میں لکھا ہے کہ ’’ریاست کے استحکام اور امن و امان‘‘ کو ان قیدیوں سے کوئی خطرہ نہیں اس لیے اُنھیں رہا کر دینا چاہیئے۔
’’ان وجوہات کے باعث نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن صدر سے عاجزانہ گزارش کرتا ہے کہ وہ عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کریں اور ان کو قید خانوں سے رہا کر دیں۔‘‘
امریکہ اور یورپی یونین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ردِ عمل میں برما پر عائد کی گئی پابندیاں ختم کرنے کے فیصلے کو تقریباً 2,100 سیاسی قیدیوں کی رہائی سے بھی مشروط کر رکھا ہے۔