برطانیہ کے ریفرنڈم پر ہفتے کے روز کچھ برطانوی شہریوں نے بتایا ہے کہ اُن کے لیے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ ''حیران کُن'' تھا، جسے کچھ تجزیہ کار ''مالیاتی اور سیاسی زلزلے'' کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔
ووٹ کے بارے جمعرات کو ہونے والے رائے عامہ کے تجزیوں سے پتا چلا تھا کہ لوگ تنظیم میں رہنے کے حق میں تھے، جب کہ جمعے کے نتائج حیران کر دینے والے ثابت ہوئے؛ اُن میں، خاص طور پر، وہ لوگ شامل ہیں جنھوں نے 28 ملکی تنظیم میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
سماجی میڈیا پر پوسٹ ہونے والے پیغامات، متوقع طور پر، غصے اور تشویش پر مبنی ہیں، خاص طور پر اُن کے لیے جنھوں نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔ اِن میں، 'ٹوئٹر' پر ہیش ٹیگ 'ہم نے یہ کیا کردیا' (واٹ ہیو وئی ڈن) شامل ہے۔
ایک پوسٹ میں ایک کارٹون دکھایا گیا ہے جس میں برطانوی جزیرہ باقی دنیا سے الگ تھلگ ہے، جس پر کیپشن تحریر ہے: 'فری ایٹ لاسٹ'؛ 'اب ہم اپنے مسائل کا کسے ذمہ دار ٹھہرائیں گے؟'
ابلاغ عامہ کے کچھ ذرائع نے نئی اصطلاح ‘regrexit’ کے عنوان سے ووٹروں کا حوالہ دیتے ہوئے، جنھوں نے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈالا، اپنے کیے پر شرمسار دکھائی دیتے ہیں، چونکہ اُس سے فوری اثرات اُن کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں لگتے۔
یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں وہ لوگ تھے جو تارکینِ وطن اور قومی اقتدار اعلیٰ پر مبنی جذبات کے حامل تھے، جن میں کچھ غصے کی حالت میں تھے۔ ریفرنڈم سے قبل کیے گئے رائے عامہ کے کچھ جائزوں میں علیحدگی کے حامی ہار رہے تھے، چونکہ تنظیم چھوڑنے کے حامیوں کا خیال تھا کہ وہ جیت نہیں سکتے۔
'معاملہ ہماری سوچ کے برعکس ہوا'
کرن ساگو، لندن کی مکین ہیں۔ اُنھوں نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ ''ذاتی طور پر، میں نہیں سمجھتی تھی کہ ہمارے ووٹوں کی تعداد اتنی ہوگی۔۔ حالانکہ میں نے بھی علیحدگی کے ہی حق میں ووٹ ڈالا تھا۔ میں نہیں سمجھتی تھی کہ ایسا ہوگا''۔
طبیعت درست ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ شروع کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر، منڈیوں میں سخت مندی کے بعد خسارے کا رجحان سرایت کر گیا، برطانوی پائونڈ تین دہائیوں کی اپنی نچلی ترین سطح سے بھی نیچے چلا گیا، ملک کی کریڈٹ ریٹنگ منفی کی سطح پر پہنچ گئی جب کہ خود برطانیہ کی تقسیم کے خدشات شد و مد سے منظر عام پر آئے۔
اسکاٹ لینڈ کی وزیرِ اوۤل، نکولا اسٹرجن نے یورنی یونین سے نکلنے کے ووٹ پر سرکاری ردِ عمل کے اظہار کے لیے اپنی کابینہ کا اجلاس طلب کیا۔ اسٹرجن نے صورت حال کو ''ناقابلِ قبول'' قرار دیا اور کہا کہ اسکاٹ لینڈ کو تنظیم سے علیحدگی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، جب کہ اسکاٹ ووٹروں کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ آزادی کا ایک نیا ریفرنڈم ''ہو سکتا ہے''۔
ہفتے کے روز ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد، اسٹرجن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اُن کے ماہرین یورپی یونین کے حکام سے ملیں گے، جس میں ''اسکاٹ لینڈ کو یورپی یونین میں رہنے کے معاملے کو اٹھایا جائے گا اور تحفظ کی فراہمی پر گفتگو ہوگی''۔
ادھر شمالی آئرلینڈ میں بھی علیحدگی کے جذبات پھوٹ پڑے ہیں، جو برطانیہ کا وہ حصہ ہے جس کی سرحدین یورپی یونین کے ساتھ ملتی ہیں۔
'سِن فائن' رہنما، مارٹن مک گنیز نے نئے ریفرنڈم کی بات چھیڑ دی ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا آیا شمالی آئرلینڈ کو برطانیہ سے علیحدہ ہونا چاہیئے؛ اور 'جمہوریہ آئرلینڈ' سے الحاق کیا جائے، جو یورپی یونی کا رُکن ہو۔ مک گنیز کے الفاظ میں ''اگر برطانیہ میں یورپی یونین چھوڑنے پر ووٹنگ ہو سکتی ہے، تو پھر یہ ہمارا جمہوری حق ہے کہ آئرلینڈ کے شہریوں کو یہ اختیار ہو کہ وہ سرحد پر اس معاملے پر ووٹنگ کرائے آیا تقسیم ختم کرکے یورپی یونین میں اپنے کردار کے بارے میں فیصلہ کیا جائے''۔
اب کیا ہو؟
اقتصادیات دان وہ طبقہ ہے جو کسی طور پر حیران نہیں ہوا، یا پھر کچھ معاملات میں، برطانیہ کے فیصلے کے بعد فوری طور پر سر جوڑ کر بیٹھ گیا۔
رائے دہی سے چار روز قبل، 'ایچ ایس بی سی' کے چیف معاشیات داں، سائمن ویلز نے اپنے صارفین کی توجہ اِس جانب مبذول کرائی کہ پائونڈ کی قدر میں 15 فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے اور برطانوی سکہ 'فائنانشل ٹائمز اسٹاک ایکس چینج (ایف ٹی ایس اِی)' 100 میں نیچے گر جائے گا۔
ایف ٹی ایس اِی 100جمعے کے روز علی الصبح بُری طرح متاثر ہوا۔ تاہم، پھر کسی حد تک سنبھل گیا۔ لیکن، 'کلوزنگ' پر اپنی سطح سے 3.15 فی صد نیچے جا پہنچا۔
کیتھ بوائے فیلڈ لندن کے معیشت داں ہیں۔ بقول اُن کے، ''ہمیں توقع تھی کہ کچھ قلیل مدتی تکلیف تو ہوگی۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنھیں کچھ صحافی پکڑ پکڑ کر سامنے لائیں گے یہ جتلانے کے لیے کہ اُنھیں اندازہ نہیں تھا کہ ووٹ کے ایسے بھی نتائج نکل سکتے ہیں۔ لیکن، ہر انتخاب میں یہی کچھ ہوتا ہے''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''مجھے ہمیشہ سے یہ توقع تھی کہ نتائج سامنے آنے کے بعد آوازیں کسی جائیں گی، اور مجھے اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ اس طرز کی گفتگو مزید چند روز جاری رہے گی''۔
کچھ معیشت دان یہ دلیل دیتے ہیں کہ برطانوی پائونڈ کا دام اونچا لگایا جا رہا تھا، اور یہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 1.49 کی شرح تک پہنچ چکا تھا جب یورپی یونین سے علیحدگی کے ووٹ کے نتائج سامنے آئے، ایسے میں جب رائے عامہ کے جائزوں میں یہ بتایا جا رہا تھا کہ برطانیہ یونین میں رہے گا؛ جب کہ فتح کے بعد غیر یقینی کیفیت ختم ہوئی اور سرمایہ کاروں کو اعتماد ملا۔
علیحدگی کے حامیوں کو امید ہے کہ پائونڈ کی گرتی ہوئی قدر کے نتیجے میں برطانوی برآمدات کو فروغ ملے گا، زر مبادلہ کا نیا توازن سامنے آئے گا، جب کہ برآمد پر انحصار کرنے والی معیشت کو شہ ملے گی۔