پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی کوششوں کے خلاف بھرپور احتجاجی مہم چلانے کے اعلان پر حکومت نے بظاہر پسپائی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نا تو اس اسلامی قانون میں تبدیلی پر غور کررہی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی سمجھوتا کرے گی۔
بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ مذہبی جماعتوں نے ناموس رسالت کے نام سے حکومت کے خلاف جو مہم چلا رکھی ہے وہ بے بنیاد ہے۔ ”بالکل اس (قانون میں تبدیلی) کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کسی ممبر نے اگر اپنے طور پر اپنا بل (پارلیمان میں) دیا ہے تویہ اُس کا اپنا حق ہے حکومت اس پر غور نہیں کررہی ۔“
وفاقی وزیر نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون کے نفاذ کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگراس پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے تو اس پر ضرور توجہ دی جائے لیکن قانون میں تبدیلی حکومت کے زیر غور نہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں خواہ مسلمان ہوں یا دیگر مذہبی اقلیتیں سب ہی ناموس رسالت کے قانون پر متفق ہیں اس لیے وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس معاملے پرکیوں اور کس مقصد کے تحت اتنا ہنگامہ کھڑا کیا جار ہاہے۔”مسلمان کس طرح سوچ سکتا ہے کہ ناموس رسالت پر سمجھوتا ہوجائے۔“
پاکستان کے اس متنازع اسلامی قانون کے تحت گذشتہ ماہ ایک عیسائی خاتون ، آسیہ بی بی، کو ضلع ننکانہ کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی جس کے بعد یہ قانون ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
آسیہ بی بی کا کہنا ہے کہ اُس پر لگایا گیا الزام بے بنیاد ہے اور گاؤں کی مسلمان خواتین نے ذاتی انتقام لینے کے لیے اُس کے خلاف یہ مقدمہ درج کرایا۔
حکمران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمن نے پارلیمنٹ میں ایک بل جمع کرا رکھا ہے جس میں توہین رسالت کے قانون میں مقدمہ درج کرنے کی شرائط کو سخت اور جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سزا دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی وزیر برائے اقلیتی اُمور شہباز بھٹی نے بھی کہا ہے کہ حکومت توہین رسالت قانون میں اصلاحات کے لیے مذہبی رہنماؤں سے مشاورت کا ارادہ رکھتی ہے۔
لیکن دوسری طرف پاکستان کی تمام بڑی اسلامی جماعتوں نے ان تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے اس اسلامی قانون میں کسی بھی ترمیم کی بھرپور مخالفت کرنے کا عزم کیا ہے اور جمعہ 31 دسمبر کو ملک گیر احتجاج بھی کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں نے اس قانون میں ترمیم یا پھر اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ تیز کردیا ہے۔ اُن کا موقف ہے کہ بنیاد پرست مسلمان اور بااثر افراد اس قانون کو ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کے نفاذ کے بعد سے ملک کی اقلیتیں خصوصاَ عیسائی برادری عدم تحفظ کا شکار ہے۔