پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی شیری رحمن نے وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں ا نہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شیری رحمن نے قومی اسمبلی میں ناموسِ رسالت ایکٹ میں ترامیم کیلیے پیش کیے گئے اپنے بل کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعرات کے روز ایک فرانسیسی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے حکمران جماعت کی رہنما کا کہنا تھا کہ انتہا پسندی کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی حکمتِ عملی درست نہیں اور مستقبل میں اس کے منفی نتائج برآمد ہونگے۔
واضح رہے کہ پی پی پی کی رکنِ قومی اسمبلی اور سابق وزیر اطلاعات شیری رحمن نے ذاتی حیثیت میں ناموسِ رسالت کے حوالے سے موجود ملکی قانون میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی میں جمع کرایا تھا۔
مجوزہ بل میں توہینِ رسالت کا جرم ثابت ہونے پر دی جانے والی سزائے موت کے خاتمے، تحقیقات پولیس کے اعلیٰ افسر سے کرانے اور الزامات غلط ثابت ہونے پر مقدمہ درج کرانے والے کے خلاف سخت سزائیں تجویز کرنے کی ترامیم پیش کی گئی تھیں۔
شیری رحمن کی جانب سے مجوزہ ترامیم کا بل پنجاب کی ایک عدالت کی طرف سے گزشتہ سال نومبر میں پانچ بچوں کی ماں ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے جرم میں دی جانے والی سزائے موت کے بعد جمع کرایا گیا تھا۔
رکنِ قومی اسمبلی نے سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس بل کے حق میں گزشتہ سال کے اواخر میں ایک مہم بھی شروع کی تھی جس پر ملک کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے اُن پر شدید تنقید کی جارہی تھی۔
دینی جماعتوں کی مخالفت اور ممکنہ عوامی ردِ عمل کے پیشِ نظر شیری رحمن کی جانب سے جمع کرایا گیا بل قومی اسمبلی کے گزشتہ کسی بھی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں ناموسِ رسالت کے قانون کے خاتمے کیلیے آواز اٹھانے والے حکمران جماعت کے ایک اور رہنما اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل کے بعد شیری رحمن نے بھی اپنی نقل و حرکت محدود کرتے ہوئے مذکورہ موضوع پر چپ سادھ لی تھی۔
بدھ کے روز ایک پارلیمانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے اپنی جماعت کی پالیسی کا احترم کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے اُس بل کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ان کی جانب سے ناموس رسالت ایکٹ میں ترامیم تجویز کی گئی تھیں۔
وزیرِ اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ حکومت اس قانون میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور ان مجوزہ ترامیم کا جائزہ لینے کے لیے نہ تو اُنھوں نے خود اور نہ ہی قومی اسمبلی کی اسپیکر نے کوئی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
وزیرِ اعظم گیلانی کے بیان پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے شیری رحمن نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کی جانب سے اس موضوع پر کسی قسم کی بحث سے انکار کے بعد ان کے پاس اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کا مقصد پاکستان کے شہریوں کو اس مذہب کے نام پر ہونے والی بے انصافی سے بچانا تھا جس میں سب سے زیادہ زور امن اور برداشت پر دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے پاکستانی حکومت سے اس قانون کی تنسیخ کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ ان اداروں کا موقف ہے کہ مذکورہ قانون کے نتیجے میں پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے جبکہ کئی لوگ ذاتی دشمنیوں کیلیے بھی اس قانون کا سہارا لیتے ہیں۔