رسائی کے لنکس

توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات کے خلاف احتجاجی مہم کا اعلان


کانفرنس میں شریک مولانا فضل الرحمن اور دیگر مذہبی رہنما
کانفرنس میں شریک مولانا فضل الرحمن اور دیگر مذہبی رہنما

مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا کہ توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی سرپرستی میں قائم مخلوط حکومت اپنے موقف کی وضاحت کرے۔

اسلام آباد میں بدھ کو منعقد کی گئی کل جماعتی تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیہ میں حکومت اور پارلیمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ توہین رسالت کے قانوں میں کسی قسم کی ترمیم برداشت نہیں کی جائے گی اور اس سے متعلق دستور و قانون کے کسی حصے کو ختم کرنے، کمزور کرنے یابے اثر کرنے کی ہر کوشش کی پوری قوت کے ساتھ مخالفت کی جائے گی۔

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کوبتایا کہ اس سلسلے میں ایک ملک گیر احتجاجی تحریک بھی شروع کی جا رہی ہے۔

اُنھوں نے تحریک کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 24 دسمبر کو نماز جمعہ کے بعد مساجد کی سطح پر احتجاج ہو گا اور ملک بھر میں مظاہرے کیے جائیں گے، جب کہ 31 دسمبر کو ملک گیر ہڑتال کی جائے گی۔ اُن کا کہنا تھا 9 جنوری کو تمام مذہبی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کراچی میں ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کرے گی اور اس موقع پر آئندہ لائحہ عمل کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔

مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا کہ توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی سرپرستی میں قائم مخلوط حکومت اپنے موقف کی وضاحت کرے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے اقلیتی اُمور نے توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کا عندیہ دے رکھا ہے جب کہ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمن نے انفرادی حیثیت سے مجوزہ اصلاحات کا مسودہ بھی بحث کے لیے پارلیمان کے ایوان زیریں میں جمع کرا رکھا ہے۔

توہین رسالت قانون کے خلاف ہونے والا ایک مظاہرہ
توہین رسالت قانون کے خلاف ہونے والا ایک مظاہرہ

گذشتہ ماہ صوبہ پنجاب کی ایک ذیلی عدالت نے اقلیتی عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والی 45سالہ خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی تھی جس کے بعد ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے توہین رسالت کے متنازع قانون پر کڑی تنقید اور اِس کی منسوخی یا اس میں اصلاحات کے مطالبات میں تیزی آئی ہے۔

ان مطالبات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کہنا تھا کہ یہ عالمی دباؤ پاکستان کے داخلی معاملات اور اس کی خودمختاری پر حملہ ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کی بعض شقوں کو دور دراز علاقوں میں با اثر افراد ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں جب کہ بعض واقعات میں مذہبی عناصر اس شقوں کو عیسائی اقلیتوں کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں کیوں کہ اس قانون میں جھوٹا مقدمہ درج کروانے والوں کے خلاف کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG