پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے توہین رسالت کے خلاف قانون میں مجوزہ ترامیم کے خلاف جمعہ کو ملک گیر ہڑتال کی ۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سمیت دیگر شہروں میں اکثر کاروباری مرکز بند اور سڑکوں پر ٹریفک کم رہی ہے کیوں کہ تاجر وں اور ٹرانسپورٹروں کی تنظیموں نے بھی مذہبی جماعتوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس ہڑتال میں شامل ہونے کا اعلان کر رکھا تھا۔ اسلامی جماعتوں نے نمازِ جمعہ کے بعد احتجاجی ریلیاں بھی نکالیں ۔
گذشتہ ماہ ننکانہ صاحب کی ایک ضلعی عدالت نے توہین رسالت کے جرم میں اقلیتی عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو موت کی سزا سنائی تھی جس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک بار پھر اس قانون میں اصلاحات یا اس کی تنسیخ کے مطالبے شروع کردیے ہیں۔ تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ حکومت کی طرف سے بار بار وضاحتوں کے باجود مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے سیاسی محرکات بھی ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مذہبی جماعتوں کے احتجاج سے حکومت پر دباؤ میں اضافہ ضرور ہوا ہے لیکن یہ صورت حال حکومت کے وجود کے لیے فی الحال خطرہ نہیں۔
حکومت پاکستان نے اس احتجاجی مہم کی حوصلہ شکنی کے لیے پچھلے دو روز کے دوران بارباریہ وضاحت کی ہے کہ وہ ”ناموس رسالت ایکٹ“ میں ترامیم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور اس سلسلے میں حکمران پیپلز پارٹی کے کسی رکن پارلیمنٹ نے اگر اس اسلامی قانون میں تبدیلی کے لیے کوئی تجاویز دی ہیں تووہ اس کی اپنی رائے ہے جو حکومت کی نمائندگی نہیں کرتی۔
دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں وفاقی حکومت کے اس اعلان کی مذمت کررہی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ وہ توہین رسالت قانون کی تنسیخ یا اس میں بنیادی اصلاحات کرنے کے لیے اپنی مہم جاری رکھیں گی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کی بعض شقوں کا فائدہ اُٹھا کر ملک کے دور دراز علاقوں میں با اثر افراد ذاتی عناد کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس قانون کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کروانے والوں کے خلاف کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے۔