پاکستان کی قومی اسمبلی میں کم عمر بچوں سے جنسی زیادتی پر سرِ عام پھانسی دینے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ اگر ریپ کرنے والے کی عمر 21 سال سے زائد ہو تو 100 افراد کے سامنے پھانسی پر لٹکایا جائے۔
یہ بل متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے اقلیتی نشست پر رکن قومی اسمبلی جیمز اقبال نے پیش کیا ہے جو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا ہے۔
مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ سات سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والا مجرم 21 سال کی عمر سے زائد ہو تو کم ازکم 100 افراد کے سامنے پھانسی، 25سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائے۔ 10سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے لیے عمر قید یا کم از کم 10 سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ 14 سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو عمر قید یا کم از کم 7 سال قید اور 2 لاکھ جرمانے کی سزا دی جائے جبکہ 18 سال سے کم عمر افراد کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ عمر قید، کم از کم 5 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے جبکہ معذور افراد کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو 14 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
اس بل کی وجوہات میں تحریر کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بچے ہر روز زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ بچوں سے زیادتی ایک عام جرم بن چکا ہے جو بچوں کے حوالے سے پاکستان کی عکاسی ایک غیر محفوظ ملک کے طور پر کرتا ہے۔
وجوہات میں مزید لکھا گیا ہے کہ بچے کی موت سے بدتر کوئی چیز نہیں اور والدین کے لیے اپنے بچے کی تدفین سے بڑھ کر کوئی غم نہیں ہو سکتا۔
بل میں مزید کہا گیا ہے کہ بچے سے زیادتی کرنے کے بعد اسے قتل کرکے لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی ہے۔ بچے پر جنسی حملہ آور ہونا نہ تو بے قابو ہوس کا شکار ہونا ہے اور نہ ہی ایسا بے پناہ جنسی خواہش کی تسکین کے لیے کیا جاتا ہے۔ بچے کو قتل کرنا نہ طاقت کا مظاہرہ ہے اور نہ ہی دیوانہ وار قتل کے رجحان کی طرف مائل ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر قابو پانا آسان نہیں ہے تاہم ایسی مثالی سزائیں دے کر ایسے واقعات میں کمی لانے کے کوشش ضرور کی جانی چاہیے۔
جیمز اقبال نے موجودہ قانون کے ایکٹ نمبر 45 مجریہ 1860 کی دفعہ 377 بی میں 5 نئی دفعات کے اضافہ کی تجویز دی ہے۔
مجوزہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے۔ کمیٹی سے منظوری کے بعد بل واپس قومی اسمبلی میں آئے گا جس کے بعد سینیٹ بھجوا دیا جائے گا۔ جہاں سے منظوری کی صورت میں صدر پاکستان کو باقاعدہ قانون بنانے کے لیے ارسال کیا جائے گا۔
پاکستان میں سزائے موت کا قانون
پاکستان میں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فور ہیومن رائٹس کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت پاکستان میں ایسے 32 قوانین ہیں جن کی خلاف ورزی پر موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کے برعکس قیام پاکستان کے وقت صرف دو جرائم ایسے تھے جن میں موت کی سزا تجویز کی گئی تھی جن میں قتل کے علاوہ دہشت گردی بھی شامل تھی۔
رپورٹ کے مطابق سال 2016 میں 425 افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جبکہ 89 افراد کی سزا پر عمل در آمد کرتے ہوئے پھانسی دی گئی۔
مختلف عدالتوں نے 2017 میں 260 افراد کو موت کی سزا سنائی جبکہ عدالتی فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے 64 افراد کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
عدالتوں نے 2018 میں 347 افراد کو موت کی سزا سنائی جبکہ 14 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ رواں سال اگست کے مہینے تک مختلف عدالتوں نے 333 افراد کو موت کی سزا سنائی ہے اور اب تک آٹھ افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔
اس عرصے کے دوران فوجی عدالتوں نے 306 مقدمات کا فیصلہ سنایا اور ان میں سے 56 افراد کی سزاؤں پر عمل ہوا۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ملزمان کو سزائے موت دیے جانے کا قانون پاکستان میں موجود ہے اور قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی کے واقعہ کے بعد مجرم عمران کودہشت گردی کی عدالت نے تیز ترین کارروائی کرتے ہوئے چند ماہ کے عرصہ میں پھانسی کی سزا سنائی اور اسے تختہ دار پرلٹکا دیا گیا تھا۔
عمران کو پھانسی کی سزا دیے جانے کے وقت بھی اس بات پر بحث جاری تھی کہ ایسے سنگین جرم میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی دی جائے۔ لیکن پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں کہ کسی بھی جرم میں ملوث شخص کو سرعام پھانسی دی جائے۔
اب ایم ایم اے کے اقلیتی رکن اسمبلی نے یہ قانون قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے جو اگر منظور کرلیا گیا تو مجرمان کو سرعام پھانسی دی جاسکتی ہے۔