”بچے تو ہمارے پہلے بھی گھر سے باہر نکلتے تھے. آٹھ سال کا میرا بچہ انہی گلیوں میں کھیل کر بڑا ہوا تھا. پہلے جب بھی کہیں جاتا تھا تو واپس آجاتا تھا لیکن اس بار ایسا گیا کہ واپس نہیں آیا۔ بیٹا ہمارا گیا اور پولیس والے ہمیں غیر ذمہ دار کہتے رہے۔ ہم پر الزام لگایا کہ تم نے مارا ہو گا بچہ تنگ آ کر کہیں چلا گیا ہو گا۔ کہیں میلے میں یا لاہور داتا دربار بھاگ گیا ہو گا۔ وہاں جا کر دیکھو۔ ہم آٹھ اگست سے تھانے کے چکر پر چکر لگاتے رہے اور پولیس والوں نے ہمارے بچے کو ڈھونڈنے کے لیے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔"
یہ الفاظ عذرا بی بی کے ہیں جو غوثیہ آباد شہر چونیاں کی وہ دُکھیاری ماں ہے۔ جس نے 8 اگست کی شام پانچ بجے اپنے بیٹے سُلیمان کو آخری بار دیکھا تھا. جب وہ گلی میں کھیلنے گیا اور واپس نہ آیا۔
ایک گھنٹے بعد تلاش ایسی شروع ہوئی کہ 18 ستمبر کو سُلیمان کی آخری بار پہنی گئی ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض اور کُچھ انسانی اعضا ملنے کی خبر کے ساتھ ہی ختم ہوئی۔
عذرا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا بیٹا خوش مزاج اور دوسروں کی مدد کرنے والا تھا۔ جتنا چھوٹا تھا خواب اتنے ہی بڑے تھے۔ وہ چھوٹی سی آنکھوں سے اپنے کچے گھر کو پکا کرنے کے خواب دیکھتا تھا۔ پڑھ لکھ کر ماں باپ اور گھر کے حالات سدھارنا چاہتا تھا۔ وہ میٹھی باتیں کرتا تھا اسی لیے گھر میں سب کا پیارا تھا۔
عذرا کے پاس بتانے کے لیے اپنے بیٹے کی بہت سی باتیں ہیں۔ وہ بتاتی جاتی ہیں اور تعزیت کے لیے آنے والے سنتے رہتے ہیں۔
عید الاضحیٰ سے چار روز قبل لاپتا ہونے والے سُلیمان کا عید کا جوڑا اور نئے جوتے ماں نے بالکل ویسے ہی سنبھال کر رکھے ہیں جیسے وہ رکھ کر گیا تھا۔ دوسری جماعت کی کتابیں، بستہ سب اپنی جگہ موجود ہیں بس انہیں پڑھنے والا اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
'پولیس والے کہتے تھے تمہیں کس نے بلایا ہے'
سُلیمان کے والد محمد اکرم شادی ہال میں مزدوری کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے پولیس والوں سے مدد لینے گئے۔ جب کبھی اُن سے پوچھنے جاتے کہ کچھ پتہ لگا تو کہتے کہ تم لوگوں کو کس نے بلایا ہے۔ کبھی باہر بٹھائے رکھتے۔ اپنے بچے کے کیس کے بارے میں پوچھنے کے لیے علاقے کے معزز لوگوں کو ساتھ لے کر جانا پڑتا کیوں کہ ہمیں تو غریب سمجھ کر ہماری بات نہیں سنتے تھے۔ اللہ گواہ ہے کہ گھر میری مزدوری سے چلتا ہے۔ میں ہر روز اپنے بچے کو ڈھونڈنے چلا جاتا تھا اور باقی تین بچے گھر بھوکے رہتے تھے۔
محمد اکرم کہتے ہیں کہ ہم نے تو قرض پکڑ کر خود سے فلیکس چھپوائے۔ "کوشش تھی کہ بس کسی طرح بچے کا معلوم ہو جائے۔ یہ پولیس والے تو شاید اب بھی نہ جاگتے اگر مولوی رمضان کا بچہ فیضان نہ گم ہوا ہوتا اور اُس کی لاش نہ ملی ہوتی۔ اگر تھوڑا اور وقت گزرتا تو ہمارے بچوں کی اب جو ہڈیاں ملی ہیں وہ بھی نہ ملتیں۔ پولیس اگر پہلے لاپتا ہوئے بچے کے کیس کو سنجیدگی سے لے لیتی تو اتنا بڑا ظلم نہ ہوتا۔"
وزیر اعلٰی پنجاب کی متاثرین سے ملاقات
لاشیں ملنے کے چوتھے روز جمعہ کی سہ پہر وزیراعلٰی پنجاب بھی متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ ملاقات کے لیے تمام متاثرہ والدین کو علاقے کی مسجد میں دو گھنٹے قبل ہی بلا لیا گیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے ملک سے باہر تھا۔ اطلاع ملنے پر مسلسل رابطے میں رہا۔ غیر ذمہ دار افسران کے خلاف کاروائی کر دی گئی ہے اور قابل لوگوں پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی ہے۔
وزیراعلیٰ نے ملزم کی اطلاع کے لیے پچاس لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کیا۔
وزیراعلٰی کو اپنے شہر میں دیکھ کر سترہ سالہ امیر حمزہ کے والد اور دیگر رشتہ دار بھی موقع پر پہنچ گئے۔ امیر حمزہ جون سے غائب ہے اور پولیس اس کی گمشدگی کی رپورٹ اس لیے درج نہیں کر رہی تھی کہ امیر حمزہ 17 برس کا ہے اور بچوں کی فہرست میں نہیں آتا۔ اور اپنی مرضی سے ہی کہیں چلا گیا ہو گا واپس آجائے گا۔ لیکن وزیراعلٰی کی سیکورٹی کی بھیڑ میں آج بھی ان کی شنوائی نہیں ہو سکی اور انہیں مایوس واپس لوٹنا پڑا۔
اس سے قبل ڈی پی او قصور اور جے آئی ٹی کے رکن زاہد نواز نے بتایا کہ مجرم ہے یا کوئی گروہ، جلد ہی سراغ لگا لیا جائے گا۔ مختلف پہلوؤں اور زاویوں کو زیر غور رکھ کر تحقیقات کر رہے ہیں۔
'بروقت ایکشن سے مزید بچے بچ سکتے تھے'
میڈیا سے گفتگو میں آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز نے کہا کہ بدقسمتی سے قصور میں ایسے واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔ 2015 میں بچوں کا ویڈیو اسکینڈل اور 2017 اور 2018 میں زینب سمیت 8 بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا واقعہ پیش آیا اور اب یہ بچے تو ہمیں بطور سوسائٹی مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بے شک پولیس کا کام شہریوں کی حفاظت یقینی بنانا ہے لیکن معاشرے میں چھپے درندوں کی نشاندہی سب کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں پولیس، والدین، این جی اوز اور علمائے کرام سب کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
آئی جی پنجاب نے اعتراف کیا کہ "اگر پولیس بروقت ایکشن لیتی تو باقی بچوں کے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ ان کے بقول جس نے بھی لاپرواہی دکھائی ہے اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ قصور میں سیف سٹی کیمروں کی تنصیب کا عمل بھی تیز کیا جائے گا۔"
فیضان اور علی حسنین کی کہانی
گمشدگی، زیادتی اور پھر قتل ہونے والوں میں غوثیہ آباد کی مسجد کے امام کا بیٹا 9 سالہ فیضان بھی شامل ہے۔ جو تیسرے بچے علی حسنین کے لاپتا ہونے کے ایک مہینے بعد 16 ستمبر کو گم ہوا تھا۔ فیضان کی لاش چونیاں بائی پاس انڈسٹریل اسٹیٹ میں مٹی کے ٹیلے سے اس وقت ملی جب ایک ٹریکٹر ٹرالی والا مٹی نکالنے گیا۔ جس کے بعد تھوڑے فاصلے سے انسانی اعضا اور پھٹے ہوئے کپڑے ملے۔
سُلیمان اکرم اور علی حسنین نے تو اپنے بچوں کے کپڑوں کے رنگ سے ان کی پہچان کی ہے۔ انہیں پولیس کی جانب سے کوئی اور ثبوت نہیں دکھایا گیا۔ وہ اب اس انتظار میں ہیں کہ کب ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ آئے اور انہیں اپنے بچوں کے جسم کا کچھ حصہ ہی سلامت مل جائے تاکہ وہ ان کی تدفین کر سکیں۔
دس سالہ علی حسنین کے والدین کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔
غربت، بے بسی اور بڑے بیٹے کی جدائی کے غم میں مبتلا والدین صرف انصاف چاہتے ہیں۔
علی حسنین کی والدہ فرزانہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا بیٹا ابھی تو ان کا سہارا بننا شروع ہوا تھا۔ والد کے ساتھ ازاربند بیچنے جاتا تھا۔ واپس آ کر سب سے پہلے دس دس روپے اپنی چھوٹی بہنوں کو دیتا تھا اور پھر میرے ہاتھ میں پیسے رکھ دیتا تھا۔ وہ سمجھدار تھا۔ اگر کسی محفوظ جگہ پہنچ جاتا تو ہمارے نام، گھر کا پتہ اور فون نمبر سب یاد تھا اسے لیکن ظالموں نے اسے چھوڑا ہی نہیں کہ وہ گھر واپس آ سکتا۔
پولیس کی بے حسی کا گلہ کرتی والدہ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی تلاش میں سونے کی بالیاں اور گھر کی دیگر اشیا بیچ دیں کیوں کہ اُن کے پاس علی حسنین کی تصویر نہیں تھی۔ کسی رشتہ دار کی شادی کی ویڈیو میں سے تصویر نکلوائی، فلیکس بنوایا اور جگہ جگہ لگایا۔ بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے لاہور سے لے کر ساہیوال سب شہروں کی خاک چھانی۔ سب جگہ پیسے لگائے۔ گھر میں باقی بچوں کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر ہم دونوں میاں بیوی بھاگ دوڑ کرتے رہے۔
چونیاں شہر میں زندگی رواں دواں ہے لیکن متاثرہ گھروں اور قرب و جوار میں خوف و ہراس ہے۔ یہاں کی رہائشی سلمٰی کے مطابق ان کے علاقے میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ سب ہمسائے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ سب بہت اچھے لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اب بھی آس پاس کے لوگوں کو تنگ کر رہی ہے۔ پوچھ گچھ ضرور کریں لیکن اس علاقے کے علاوہ جو یہاں نئی سوسائٹیز بنی ہیں اور نئے نئے لوگ آ رہے ہیں ان کو بھی شامل تفتیش کریں۔ سلمیٰ کہتی ہیں کہ ان واقعات کے بعد اب وہ اپنے بچوں کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھتی ہیں۔
مُقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سب مزدور غریب طبقہ رہتا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ضلع قصور نے ایسا کیا قصور کر دیا کہ بچوں پر قہر ٹوٹ رہا ہے۔ لیکن پولیس اور متعلقہ حکام کو تو معلوم ہونا چاہئیے تھا کہ اگر ایک ضلع میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں تو سنجیدگی سے کام کریں۔