رسائی کے لنکس

جنیوا میں صدر بائیڈن کی روسی ہم منصب پوٹن سے ملاقات ختم ہو گئی


سوئس صدر نے بائیڈن اور پوٹن کا خیر مقدم کیا اور دونوں ممالک کے درمیان بامقصد اور جامع مذاکرات کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
سوئس صدر نے بائیڈن اور پوٹن کا خیر مقدم کیا اور دونوں ممالک کے درمیان بامقصد اور جامع مذاکرات کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن سے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ملاقات ختم ہو گئی ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور دیگر اعلیٰ حکام بھی امریکی صدر کے ہمراہ موجود تھے۔

وائٹ ہاوس کے مطابق سربراہ اجلاس مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجکر پانچ منٹ پر ختم ہوا۔

صدر جو بائیڈن اور ان کے روس کے ہم منصب، متوقع طور پر بدھ کو الگ الگ پریس کانفرس سے خطاب کر رہے ہیں۔

امریکہ اور روس کے راہنماوں نے ملاقات سے قبل ایک دوسرے کا شکریہ ادا کیا اور ملاقات سے قبل میڈیا کے سامنے نمودار ہوئے۔ اس موقع پر امریکی اور روسی صحافیوں کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی۔

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے ایک مترجم کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے، اس ملاقات کی دعوت پر صدر جو بائیڈن کا شکریہ ادا کیا۔

’’ جناب صدر، آج کی ملاقات میں مدعو کرنے پر آپ کا شکر گزار ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ طویل سفر پر ہیں‘‘

روسی صدر نے مزید کہا کہ واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان کئی معاملات اکٹھے ہو گئے ہیں جو اعلی ترین سطح پر ملاقات کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ یہ ملاقات ثمر آور ثابت ہو گی۔

صدر جو بائیڈن نے بھی اس کا جواب نرم انداز میں دیا

’’ بہت شکریہ۔ جیسا کہ میں نے باہر بھی کہا ہے، میرے خیال میں یہ ہمیشہ بہتر رہتا ہے کہ رو برو ملاقات ہو‘‘

امریکہ اور روس، دونوں فریق اس ملاقات کی اہمیت اجاگر کرتے رہے ہیں لیکن دونوں فریقوں نے آپس کے کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امیدیں کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کیا ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں توقع تھی کہ دونوں ملک موقع کو دوسرے پر اپنی رنجشیں پہنچانے کے لیے استعمال کریں گے نہ بڑے معاہدوں کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر۔

اس سے قبل جنیوا پہنچنے پر سوئس صادر نے دونوں رہنماؤں کا استقبال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان بامقصد اور جامع مذاکرات کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

جنیوا کو بین الااقوامی مذاکرات کے لیے تاریخی طور پر ایک غیر جانب دار مقام سمجھا جاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق دونوں صدور اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ملاقات کریں گے جس کے بعد روس اور امریکہ کے درمیان وفود کی سطح پر مذاکرات ہوں گے جو چار گھنٹے تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

امریکی اور روسی میڈیا نمائندگان کے درمیان دھکم پیل کے باعث دونوں رہنماؤں کی ملاقات سے قبل میڈیا سے ابتدائی گفتگو بدنظمی کا شکار ہو گئی۔

اس دوران روسی صدر پوٹن نے کہا کہ "جنابِ صدر میں آج کی ملاقات کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ایک لمبے سفر پر ہیں۔"

خیال رہے کہ بائیڈن گزشتہ ہفتے بطور صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر یورپ پہنچے تھے۔ بائیڈن نے جی سیون ممالک کے اجلاس کے علاوہ یورپی رہنماؤں اور نیٹو حکام سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔

پوٹن کا کہنا تھا کہ "امریکہ اور روس کے تعلقات میں بہت سے معاملات حل طلب ہیں اور میں اُمید کرتا ہوں کہ آج کی ملاقات نیتجہ خیز ہو گی۔"

جواب میں امریکی صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ "شکریہ جیسا کے میں نے باہر بات کی کہ بالمشافہ ملاقات بہتر ہوتی ہے۔"

مذاکرات کے اختتام پر دونوں صدور الگ الگ میڈیا سے گفتگو کریں گے۔

دونوں ممالک کے درمیان حالیہ عرصے میں پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں فریقین اس ملاقات میں کسی بڑی پیش رفت کا امکان ظاہر نہیں کر رہے۔

سوئٹزر لینڈ جاتے ہوئے ایئر فورس ون میں وائس آف امریکہ اور دیگر صحافیوں سے گفتگو میں بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہل کار نے بتایا کہ اس ملاقات میں کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔

امریکی صدر کے ہمراہ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن جب کہ روسی صدر کے ہمراہ روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کے علاوہ دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام موجود ہیں۔

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ اہم سمٹ لگ بھگ کئی گھنٹے تک جاری رہ سکتی ہے جس میں دونوں ممالک کے درمیان حل طلب معاملات اور تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری دُور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

جنیوا پہنچنے پر صدر بائیڈن سے ایک صحافی نے بدھ کے مذاکرات سے متعلق پوچھا کہ کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں؟ ان کا جواب تھا میں ہمیشہ تیار رہتا ہوں۔

امریکی نشریاتی ادارے 'این بی سی' کو دیے گئے انٹرویو میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور روس کے تعلقات حالیہ عرصے میں تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دو طرفہ معاملات، عالمی سیاسی صورتِ حال سمیت سائبر سیکیورٹی وہ اہم معاملہ ہے جس پر امریکی حکام اس ملاقات کے دوران زیادہ زور دیں گے۔

امریکی حکام کے مطابق صدر بائیڈن کا یہ ہدف ہے کہ دونوں ممالک ایسے مواقع تلاش کریں جن کے ذریعے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو سکی۔

بائیڈن انتظامیہ کے اہل کار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر روس پر یہ واضح کریں گے کہ روس کے ہر اس اقدام کا سخت جواب دیا جائے گا جس سے امریکہ کی قومی سلامتی پر حرف آتا ہو۔

امریکہ اور روس کے تعلقات میں حالیہ سرد مہری

دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کے تعلقات میں حالیہ عرصے میں مزید سرد مہری آئی ہے۔

امریکہ نے 2020 کے صدارتی انتخاب میں مبینہ مداخلت اور امریکہ کے وفاقی اداروں پر سائبر حملوں کو بنیاد بناتے ہوئے روس پر پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔ روس ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کر چکا ہے۔

اپریل میں صدر بائیڈن نے روس کے 10 سفارت کاروں کو نکالنے کا حکم دیتے ہوئے اس کی کئی کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔

جواب میں روس نے بھی امریکی سفارت کاروں کو نکالنے کا اعلان کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG