برطانیہ کے ساحلی تفریحی مقام کاربس بے پر ہونے والی جی سیون کانفرنس می شریک عالمی رہنماوں نے ویکسین کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون اور عالمی معیشت کو زیادہ شفاف بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا کو دنیا کے لیے ایک 'نہ مٹنے والا زخم' نہیں بننے دیا جائے گا۔
بورس جانسن نے کاربس بے میں جی سیون سربراہ کانفرنس کے پہلے روزشرکا کا خیرمقدم کیا۔ دنیا کی سات طاقت ور معیشتوں کی اس کانفرنس کے اہداف میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے، معاشی ترقی اور روس اور چین کی جانب سے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے مقابلے کے لیے خود کو تیار کرنا شامل ہے۔
اس موقع پر نامہ نگاروں نے صدر بائیڈن سے پوچھا کہ وہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن کو، جن سے وہ آئندہ دنوں میں ملاقات کرنے والے ہیں، کیا پیغام دیں گے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ پوٹن کو پیغام دینے کے بعد میں آپ کو بتا دوں گا۔
جی سیون کے سربراہان کے اعزاز میں ملکہ برطانیہ کا استقبالیہ
برطانیہ کے تفریحی مقام کارنوال میں جمعے کے روز جی سیون کے اجلاس کے پہلے دن برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے سربراہان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا جس میں شاہی خاندان کی تین نسلوں کی شخصیات یعنی پرنس چارلز، ان کی اہلیہ کمیلا پارکر اورپرنس ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ نے بھی شرکت کی۔
اس تقریب میں زیادہ تر میڈیا کو کوریج کی اجازت نہیں دی گئی۔
جی سیون سربراہ کانفرنس کے موقع پر صدر جو بائیڈن نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون سے علیحدہ ملاقات کی۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے کرونا وائرس پر کنٹرول، افریقہ میں دہشت گردی پر قابو پانے اور امریکہ اور فرانس کے درمیان شراکت داری کے موضوعات پر بات چیت کی۔
غریب ملکوں کے لیے ویکسین کی ایک ارب خوراکوں کا عطیہ
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے جی سیون سربراہ اجلاس سے ایک دن پہلے جمعرات کو اعلان کیاتھا کہ سات ملکوں کی جی سیون تنظیم کم اور متوسط آمدنی والے ملکوں کو کوویڈ ویکسین کی ایک ارب خوراکیں عطیہ کرے گی۔
اس سے کچھ دیر پہلے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ فائزر ویکسین کی 50 کروڑ خوراکیں عطیہ کررہی ہے۔ یہ جی سیون ملکوں کے عطیے کا نصف حصہ ہو گا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر دنیا کو وبا سے پاک کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ برطانیہ 10 کروڑ خوراکیں عطیہ کرے گا۔
وزیراعظم جانسن نے کہا کہ برطانیہ میں ویکسین پروگرام کی کامیابی کے بعد اب ہم اس قابل ہیں کہ اضافی خوراکیں انہیں فراہم کریں جنہیں ان کی ضرورت ہے۔ وبا کو شکست دینے کے لیے یہ ہمارا بڑا قدم ہو گا۔
صدر بائیڈن نے جمعرات کو کورنوال میں کہا کہ امریکی خوراکوں کے عطیات اگست سے روانہ ہونا شروع ہوں گے۔ 20 کروڑ خوراکیں سال کے آخر تک جب کہ 30 کروڑ خوراکیں اگلے سال کے پہلے چھ ماہ میں فراہم کی جائیں گی اور ان کے ساتھ کوئی شرط منسلک نہیں ہوگی۔
آب و ہوا کی تبدیلی کی تنظیم کے کارکنوں کا مظاہرہ
جمعے کے روز جی سیون کے اجلاس کے مقام کاربس بے کے قریبی ایک قصبے سینٹ آیوس میں آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق سرگرم کارکنوں کی تنظیم(Extinction Rebellion) نے ایک احتجاجی جلوس کی قیادت کی۔
جلوس کے شرکا نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر، جی سیون وعدوں میں ڈوب رہا ہے، اور ایکشن ناٹ ورڈز ، یعنی الفاظ نہیں، عملی اقدامات جیسے نعرے درج تھے ۔ جلوس کے شرکاٗ ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کے مطالبے کر رہے تھے۔
جمعے ہی کو کورنوال میں سرگرم کارکنوں نے ایک احتجاجی مظاہرے میں امریکی صدر بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور گروپ سیون کے دوسرے رہنماؤں کا بھیس دھار کر شرکت کی۔
امریکہ کی ساکھ میں بہتری آئی ہے؟
پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد امریکہ کی عالمی ساکھ میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے۔
جن 16 ملکوں میں رائے عامہ کا جائزہ لیا گیا، وہاں 60 فیصد سے زیادہ شہریوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ جو بائیڈن عالمی امور کے معاملے میں درست کام کریں گے۔
جرمنی اور فرانس جیسے اتحادی ملکوں میں امریکہ کے بارے میں مثبت رائے گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 فیصد بہتر ہوئی ہے۔ امریکہ کے بارے میں مثبت رائے گزشتہ سال ان دو ملکوں کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ اور جاپان میں بھی تاریخ کی کم ترین سطح پر تھی۔
اس سروے کے نتائج صدر بائیڈن کے برطانیہ پہنچنے کے ایک دن بعد جاری کیے گئے ہیں۔ یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے جس میں وہ امریکہ کے عالمی مقام اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش رکھتے ہیں۔
امریکہ کی عالمی ساکھ میں بہتری کے باوجود سروے سے معلوم یوا کہ ان 16 ملکوں میں بہت سے لوگ امریکہ کے شراکت دار اور فعال جمہوریت ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ ان ملکوں میں سروے کئے گئے اکثر افراد کا کہنا تھا کہ امریکہ ماضی میں ایک اچھی مثال تھا لیکن حالیہ برسوں میں ایسا نہیں رہا۔
پیو ریسرچ سینٹر نے اس سروے کے لیے 12 مارچ سے 26 مئی تک 16254 افراد کی رائے معلوم کی۔ جن ملکوں میں یہ سروے کیا گیا ان میں آسٹریلیا، بیلجئم، کینیڈا، فرانس، جرمنی، یونان، اٹلی، جاپان، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، سنگاپور، اسپین، سویڈن، جنوبی کوریا، تائیوان اور برطانیہ شامل ہیں۔