قدرتی وسائل سے مالا مال جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہفتہ کو اسلام آباد میں ’بلوچستان کا مسئلہ اور اس کے حل‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد کی۔ جس میں حکمران پیپلز پارٹی، اپوزیشن مسلم لیگ (ن)، بلوچ قوم پرست جماعتوں سمیت ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سینیئر رہنماؤں نے شرکت کی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد نے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کا مقصد بلوچستان کے مسائل کا قابل عمل حل تلاش کرنا ہے۔
’’اس (بلوچستان) کا حل عدالت کے پاس نہیں ہے بلکہ اس کا حل پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس ہے جو 18 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہیں۔‘‘
بلوچستان میں اغواء برائے تاوان کے واقعات، بم دھماکوں، علیحدگی پسند بلوچوں کے حملوں، جبری گمشدیوں اور صحافیوں و امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافے کے بعد سپریم کورٹ نے صوبے کے حالات کا از خود نوٹس لے رکھا ہے اور حالیہ دنوں میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں بھی اس مقدمے کی سماعت کے دوران صوبائی انتظامیہ اور سیکورٹی کے اداروں کو طلب کر کے امن عامہ کی صورت حال بہتر بنانے بالخصوص لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے لیے کوششیں تیز کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کے احکامات کے بعد صوبے سے لاپتہ ہونے والے کم از کم 18 افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔
کانفرنس میں شریک بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں نے صوبے میں سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دیرپا امن کے قیام کے لیے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
شرکاء نے صوبے میں فرنٹئیرکور کی کارروائیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ طاقت کے استعمال سے مسائل کا حل ممکن نہیں۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ بلوچستان میں کسی طرح کا آپریشن نہیں کیا جا رہا ہے۔
حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کی اہم حلیف جماعت مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کانفرنس میں کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حقیقی اور دیرپا حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی پارٹی ایجنڈے کو بالائے طاق رکھ کر کوششیں کرنا ہوں گی۔
’’بلوچستان میں بسنے والے بلوچ، پشتون، ہزارہ اور دیگر قوموں کے لوگوں سے بات چیت کی ضرورت ہے اور یہ ہی اس مسئلے سے نمٹنے کا واحد حل ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جب کہ اس ضمن میں ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو صوبے کے مسائل کے حل کے لیے اپنی سفارشات تجویز کرے گی۔
بلوچستان کے مسئلے پر قوم پرستوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت پاکستان نے رواں سال کے اوائل میں اہم بلوچ رہنماؤں کے خلاف ایسے مقدمات ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے جو ’’سیاسی بنیادوں‘‘ پر قائم کیے گئے تھے۔
لیکن بلوچ قوم پرست رہنماؤں نے حکومت کی اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔