قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں طویل عرصے سے مقامی باغی تنظیمیں اہم تنصیبات بشمول سرکاری اہلکاروں اور ملک کے دیگر حصوں سے یہاں آکر آباد ہونے والوں کو اپنی پرتشدد کارروایئوں کا نشانہ بنا رہی ہیں، لیکن تشدد کی ان کاروائیوں نے حالیہ مہینوں میں ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر حصوں میں آئے روز اغواء برائے تاوان کے واقعات ہو رہے ہیں جن میں سے اکثر کے بارے میں پولیس کو خبر بھی نہیں دی جاتی کیونکہ متاثرین خاموشی سے تاوان ادا کرنے کے بعد مغوی کو رہا کروا لیتے ہیں۔
صوبائی حکام کا ماننا ہے کہ عسکری تنظیموں کی کارروائیوں کی آڑ میں دراصل زیادہ تر مقامی جرائم پیشہ گروہوں نے اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور پولیس کے بقول اس وقت صوبے میں 70 سے زائد گروپ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔
ان کارروائیوں کا ہدف مقامی اور غیر ملکی امدادی تنظیموں کے لیے کام کرنے والے افراد بھی بن رہے ہیں اور جب کوئی چھوٹا گروہ کسی اہم شخصیت کا اغواء کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اُسے چھوٹی رقم کے عوض طالبان جنگجوؤں کے حوالے کر دیتا ہے جو اُسے وزیرستان منتقل کر دیتے ہیں اور مغوی کی رہائی کے بدلے متعلقہ اداروں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں جو اکثر واقعات میں ادا کر دیا جاتا ہے۔
اگر تاوان ادا نہیں ہوتا تو یرغمالی کو قتل کر دیا جاتا ہے جیسا کے گزشتہ ماہ بین الاقوامی ریڈ کراس کے برطانوی نژاد ڈاکٹر خلیل رسجد ڈیل کے ساتھ ہوا۔
اُدھر پاکستان میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف غیر ملکی تنظیموں نے اپنے کارکنوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ان حالات میں وہ اپنے منصوبوں کو محدود کرنے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کو بنیادی صحت، تعلیم اور دیگر ایسی سہولتیں فراہم کرنے کا عمل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
تقریباً 50 بین الاقوامی امدادی تنظیموں پر مشتمل ’پاکستان ہیومنیٹیریئن فورم‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں گزشتہ چار سال کے دوران مختلف واقعات میں مجموعی طور پر 18 امدادی کارکن قتل کر دیے گئے جب کہ 22 سے زائد کو اغواء کیا گیا جن میں سے سات تاحال یرغمال ہیں۔
ان امدادی تنظیموں نے ڈاکٹر خلیل رسجد ڈیل کے تاوان کی عدم ادائیگی پر قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکام آج تک ان واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار نہیں کر سکے اور نہ ہی کسی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے۔
اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں حالیہ دنوں میں خاص طور پر بلوچستان میں غیر معمولی اضافے پر صوبے میں ہرطبقہ پریشان ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ صرف صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اس سال اب تک اغواء برائے تاوان کے پندرہ مقدمات درج ہوچکے ہیں اوران میں 13 مغویوں کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کیا جاچکا ہے جبکہ دو تاحال لاپتا ہیں۔
ڈی آئی جی پولیس حامد شکیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث پانچ گروہوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ان کے کچھ ساتھی ابھی مفرور ہیں۔
’’دو بڑے گروہ ہیں جو پھچلے تین، چار سالوں سے پولیس کے ہاتھ نہیں آ سکے ہیں۔ یہ گروہ عموماً اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘
ڈی آئی جی حامد شکیل نے بتایا کہ ان کے محکمہ کے پاس جدید آلات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے اغوا برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اغواء کار موبائل فون کے ذریعے رابطے کرتے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کے باوجود پولیس کو ان نمبروں کے بارے میں معلومات براہ راست فون کمپنیوں سے نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے انھیں انٹیلی جنس بیورو سے رابطہ کرنا پڑتا ہے جس میں کئی روز لگ جاتے ہیں۔
’’اغواء برائے تاوان میں اگر آپ قلیل وقت میں کوئی کارروائی کر لیں تو ملزمان پر دباؤ پڑتا ہے، اُن میں ڈر خوف پیدا ہوتا ہے اور ان وارداتوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ظفراللہ زہری نے گزشتہ دنوں یہ انکشاف کیا تھا کہ اغوا برائے تاوان کی واردوتوں کی سرپرستی صوبائی کابینہ کے بعض وزراء کر رہے ہیں تاہم انھوں نے ان کے نام نہیں بتائے اور نہ ہی ان کے اس بیان پر مرکزی یا پھر صوبائی حکومت نے اب تک سنجیدگی سے کوئی کارروائی کی ہے۔