رسائی کے لنکس

بلوچستان میں امن و استحکام کے لیے مذاکرات اولین ترجیح


کوئٹہ میں حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے (فائل فوٹو)
کوئٹہ میں حالیہ برسوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے (فائل فوٹو)

پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے کہا ہے کہ بلوچستان میں امن و استحکام کے لیے صوبے میں قوم پرست اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کو اولین ترجیح دی جائے گی۔

یہ فیصلہ ملک کے سب سے بڑے مگر پسماندہ ترین صوبے میں امن و امان کی تیزی سے بگڑتی ہوئے صورت حال اور اس کی وجوہات کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد میں منگل کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔

وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت ہونے والے مشاورتی اجلاس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل ظہیر الاسلام بھی شریک ہوئے۔

اجلاس کے بعد صحافیوں کو اس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ بلوچستان میں امن عامہ کی بحالی سے متعلق کوششوں کی بنیاد مذاکرات، قانون کی بالا دستی اور صوبائی خود مختاری کے اُصولوں پر مشتمل ’ڈی آر اے‘ نامی پالیسی پر ہو گی۔

قمر زمان کائرہ
قمر زمان کائرہ

’’مذاکرات اس کا پہلا حصہ ہے ... مذاکرات پہلے اُن ساتھیوں کے ساتھ کیے جائیں گے جنھوں نے پھچلے انتخابات میں حصے نہیں لیا، دوسرے نمبر پر قوم پرست جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں سے بات ہو گی اور پھر باقی گروہوں کے ساتھ بھی مذاکرات کیے جائیں گے ... لیکن آئینِ پاکستان اور وفاق کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات ہوں گے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ اجلاس میں زیرِ بحث آنے والے موضوعات میں ’’لاپتا افراد‘‘ کا مسئلہ سرِ فہرست رہا اور شرکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حکومت جبری گمشدگی کے واقعات کی وجوہات کا سنجیدگی سے جائزہ لے گی اور ان کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں گے۔

’’ایک چھ رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس میں صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے تین، تین رکن شامل ہوں گے اور وہ ہفتہ وار میٹنگ کرکے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کریں گے۔‘‘

وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ بلوچستان بھر میں حکومتی عمل داری قائم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور دیگر شہروں میں امن و امان کی بہتری پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’فرنٹیئر کور‘ کی ذمہ داری کو امن و امان برقرار رکھنے تک محدود کر دیا گیا ہے اور یہ نیم فوجی سکیورٹی فورس صوبائی وزیر اعلیٰ کے احکامات کے تحت کام کرے گی۔

قمر زمان کائرہ کے بقول جنرل کیانی نے اجلاس کے شرکاء کو یقین دہانی کرائی کہ فوج اور فرنٹیئر کور اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔

اس سے قبل اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں وزیرِ اعظم گیلانی نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت ان اسباب پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جو بلوچستان کے عوام میں ’’بے چینی اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں مسلسل اضطراب کی وجہ بن رہے ہیں۔‘‘

اُنھوں نے اجلاس کو ان سیاسی و اقتصادی اقدامات سے بھی آگاہ کیا جو حکومت نے بلوچ عوام کے درینہ مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں اب تک کیے ہیں۔

’’بہت سے ایسے سیاسی کارکن جو سنگین جرائم میں ملوث نہیں تھے ان کے خلاف حکومت نے مقدمات واپس لیے جس کے نتیجے میں کئی لاپتا افراد اپنے خاندانوں سے دوبارہ جا ملے ہیں۔‘‘

بلوچ قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ فوج کے خفیہ ادارے اور ایف سی صوبے میں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں ملوث ہیں، لیکن یہ ادارے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں اغواء برائے تاوان، جبری گمشیدیوں اور صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے علاوہ سکیورٹی فورسز اور دیگر سرکاری اہداف پر علیحدگی پسند بلوچوں کے مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG