رسائی کے لنکس

سری نگر میں میوزک کنسرٹ ہنگامہ آرائی کی نذر کیوں ہوا؟


بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کا کہنا ہے سری نگر کی مشہور جھیل نگین کے کنارے ہونے والے میوزک کنسرٹ میں ہنگامہ آرائی کرنے والے 'شر پسندوں' کی نشان دہی ہو گئی ہے جنہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

اتوار کو نگین جھیل کے کنارے بادام واری (بادام کے درختوں کے باغ) میں نامعلوم افراد نے ایک میوزک کنسرٹ پر دھاوا بول دیا تھا اس دوران موسیقاروں اور گلوکاروں پر تشدد اور موسیقی کے آلات کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اتوار کی سہہ پہر دو درجن کے قریب نوجوان نعرے لگاتے ہوئے باغ میں داخل ہوئے اور باغ کے مشرقی کنارے پر بنائے گئے عارضی اسٹیج پر چڑھ گئے۔

اس دوران لگ بھگ تین سے چار ہزار لوگ معروف گلوکارہ شازیہ بشیر کے گانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

اگرچہ شازیہ بشیر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تاہم مشتعل نوجوانوں نے چند مرد سازندوں کو دھکے دیے اور موسیقی کے آلات اور اسٹیج کو نقصان پہنچایا۔

شازیہ بشیر اور دوسرے گلوکار، سازندے اور اس ثقافتی شو کے منتظمین بڑی مشکل سے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔

عام شہری بڑی تعداد میں خوش گوار موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں آئے تھے جو صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے عجلت میں وہاں سے چل دیے۔

بادام واری کا میلہ وادیٔ کشمیر میں موسمِ بہار کی آمد کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے۔

بعض عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ہلہ بولنے والے یہ کہہ رہے تھے کہ ایک جانب حکومت کرونا کیسز بڑھنے پر مساجد اور دیگر عبادات محدود کرنے کا کہتی ہے لیکن دوسری جانب اس طرح کے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جہاں ہزاروں لوگ بغیر کسی احتیاط کے شریک ہیں۔

ناقدین اور بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اور مقامی انتظامیہ اس طرح کے پروگراموں میں عام لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کو جموں و کشمیر میں حالات میں بہتری کی ایک علامت کے طور پر بیرونی دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے۔

بادام واری علاقے کے ایک شہری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس ‌نے مشتعل نوجوانوں میں شامل ایک نوجوان کو یہ کہتے سنا کہ وہ اس طرح کے شوز کے انعقاد کے خلاف اس لیے بھی ہے کیو‌ں کہ وادیٔ کشمیر میں تشدد اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی جانوں کا ضیاع اب بھی جاری ہے۔

'من پسند گانا سنانے میں تاخیر پر ہنگامہ ہوا'

تاہم پولیس کہتی ہے کہ بادام واری میں ہنگامہ آرائی اس وقت شروع ہوئی جب ایک نو عمر لڑکے ‌نے ایک گلوکارہ سے اس کی پسند کا گیت گانے کی فرمائش کی لیکن اسے پورا کرنے میں تاخیر ہوئی جو اس لڑکے پر ناگوار گزرا اور اس نے گلوکارہ سے مائیک چھین لیا۔

پولیس کے مطابق اس پر کلچرل گروپ میں شامل ایک شخص نے لڑکے کو تھپڑ مارا جس پر شائقین میں شامل کچھ لوگ مشتعل ہو گئے اور صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شرپسندوں نے اسٹیج پر دھاوا بول دیا۔

پولیس بیان میں مزید کہا گیا شرپسندوں کے ایک گروہ نے اس موقع پر ہنگامہ کھڑا کر دیا جب کہ وہاں بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد موجود تھے۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس موقع پر صبر و تحمل سے کام لیا کیوں کہ کسی بھی قسم کی شیلنگ یا طاقت کے استعمال کے نتیجے میں وہاں بھگدڑ مچ سکتی تھی۔

پولیس نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے شر پسندوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی شناخت ہوگئی ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں آئے گی۔

بی جے پی کے بلدیاتی نمائندے کا قتل

ادھر پیر کو مشتبہ عسکریت پسندو‌ں نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے شمال مغربی شہر سوپور میں بلدیاتی ادارے کے ایک اجلاس کے دوران شرکا پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک کونسلر اپنے محافظ سمیت ہلاک ہو گئے۔

مقتول کونسلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق بھارت کی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تھا۔

پولیس نے بتایا کہ پیر کی دوپہر کو خود کار ہتھیاروں سے لیس افراد نے سوپور میونسپل آفس کو نشانہ بنایا اور فائرنگ میں تین افراد زخمی ہو گئے۔

انہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں کونسلر ریاض احمد پیر اور اسپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) شفقت نذیر خان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ ایک اور کونسلر شمس الدین کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG