افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ جس طرح پاکستان میں وکلاء کی تحریک کامیاب ہوئی تھی، انہیں توقع ہے کہ اپنے علاقے میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں پشتون بھی کامیاب رہیں گے ۔
صدر غنی نےاس معاملے پر کئی ٹویٹس کیے اور کہا ہے کہ وہ پاکستان میں تاریخی پشتون لانگ مارچ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد خطے میں بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خلاف لوگوں کو متحرک کرنا ہے۔
انہوں نے ذرائع ابلاغ سے اپیل کی کہ وہ پشتونوں کی شکایات اور مطالبات سامنے لا کر دنیا کے سامنے اس کی ایک حقیقی تصویر پیش کریں۔
کراچی میں پچھلے مہینے پولیس کے ہاتھوں ایک مبینہ جعلی مقابلے میں ایک قبائلی نوجوان نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد قبائلی علاقوں میں رہنے والے ہزاروں پشتونوں نے انصاف کے حصول اور انہیں دبانے کے رویوں کے خلاف احتجاج کیا۔
اپنے مطالبات کے حق میں انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا۔
اسلام آباد کا دھرنا نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث پولیس کے اعلیٰ عہدے دار راؤ انوار کی گرفتاری کے مطالبے سے شروع ہوا تھا، جس کے بعد مظاہرین کے مطالبات کی فہرست طویل ہوتی گئی جس میں وزیرستان سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ، سیکیورٹی کی غرض سے قائم پڑتالی چوکیاں ہٹانا، علاقے میں گاہے بگاہے کرفیو کا نفاذ بند کرنا اور جبری لاپتا کیے جانے والے افراد کی بازیابی جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔
پاکستان کی حکومت کی طرف سے افغان صدر اشرف غنی کی بیان اور ٹویٹ کا ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا تاہم عہدے داروں کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے ہی راؤ انوار کو نہ صرف اپنے عہدے سے ہٹا چکی ہے بلکہ اس کی گرفتاری میں مدد کے لیے سیکیورٹی اداروں کو بھی ہدایت جاری کر چکی ہے۔
راؤ انوار ابھی تک روپوش ہیں اور کسی کو ان کے ٹھکانے کا علم نہیں ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی نقیب اللہ کے جعلی پولیس مقابلے کا نوٹس کر احکامات جاری کیے ہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں قبائلی مظاہرین کے ایک گروپ سے ملاقات میں ان کے جائز مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کیا تھا جس کے بعد کئی مظاہرین دھرنے سے واپس چلے گئے تھے۔