رسائی کے لنکس

افغانستان کے شناختی کارڈ پر ’افغان‘ قومیت لکھنے پر شديد اختلافات


کابل میں ایک افغان خاتون نے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے اپنا شناختی کارڈ تھام رکھا ہے۔ فاٹل فوٹو
کابل میں ایک افغان خاتون نے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے اپنا شناختی کارڈ تھام رکھا ہے۔ فاٹل فوٹو

اس معاملے میں لوگ جلد ہی جذباتی ہو جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں اس سلسلے میں ہونے والے کئی بحث مباحثے نہ صرف بے نتیجہ رہے ہیں بلکہ ارکان کے درمیان تلخ جملوں اور دھمکیوں تک کے تبادلے بھی ہو چکے ہیں۔

افغانستان میں عام انتخاب سے پہلے نئے الیکٹرانک شناختی کارڈ جاری کرنے کے لاکھوں ڈالر کا منصوبہ ملک میں تندو تیز بحث مباحثے اور نسلی منافرت کو ایک ایسے موقع پر ہوا دے رہا ہے جب شورش زدہ افغانستان کو طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تنازع اس بات پر ہے کہ نئے شناختی کارڈ پر قومیت کا اندرج کس طرح کیا جائے گیا کیونکہ ملک کے کئی نسلی گروپوں نے’ افغان‘ کی اصطلاح قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں کئی قومیں آباد ہیں، جن کی ثقافت اور روايات ایک دورے سے مختلف ہیں، اور ایک طاقت ور گروپ پشتون سے تعلق رکھنے والے صدر اشرف غنی کے ایک اور بااثر اور طاقت ور نسلی گروپ تاجک کے گورنر سے اختلافات، کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

مرکزی نسلی گروپ پٹھان سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ نئے شناختی کارڈ پر قومیت کا اندراج ’ افغان‘ کے طور پر کیا جائے ۔ لیکن ماضی میں یہ اصطلاح پختونوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے اور دوسرے نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور دانشور اس اصطلاح کو قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

صدر اشرف غنی نے، جو ایک پختون ہیں، نئے الیکٹرانک کارڈوں کا اجرا موخر کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی اپیل کی ہے۔

لیکن اس معاملے میں لوگ جلد ہی جذباتی ہو جاتے ہیں اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں اس سلسلے میں ہونے والے کئی بحث مباحثے نہ صرف بے نتیجہ رہے ہیں بلکہ ارکان کے درمیان تلخ جملوں اور دھمکیوں تک کے تبادلے بھی ہو چکے ہیں۔

ایک پختون رکن پارلیمنٹ صاحب خان نے خبررساں ادارے روئیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس کسی نے شناختی کارڈ پر’افغان‘ کا لفظ قبول کرنے سے انکار کیا تو وہ اس کے خلاف اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔

اس تنازع کے باعث کابل میں پختون کئی مظاہرے کر چکے ہیں جن میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کسی اور گروپ کے مطالبوں پر دھیان نہ دیں۔

افغانستان میں کئی عشروں سے مردم شماری نہیں ہوئی اس لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ ملک میں موجود مختلف نسلی گروپوں کی آبادی کتنی ہے۔

افغانستان کے دو سب سے بڑے نسلی گروپ پختون اور تاجک ہیں۔ جب کہ چھوٹے گروپوں میں ہزارہ، ازبک اور کئی دوسرے گروپ شامل ہیں۔

ہزارہ گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمنٹ محمد اکبری نے کہا کہ شناختی کارڈ پر افغان کا لفظ لکھنا دراصل زبردستی غیر پختونوں پر یہ لیبل چسپاں کرنا ہے جو ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک تمام قومیتوں کا ہے، صرف پٹھانوں کا نہیں ہے۔

صدر اشرف غنی نے پچھلے سال ایک فرمان کے ذریعے قانون میں ترمیم کر کے شناختی کارڈ میں قومیت، نسل اور مذہب کا اندراج کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن پارلیمنٹ نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس وقت سے کئی ترمیمی قانونی مسودے گردش کر تے رہے ہیں لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی۔

افغانستان کے سابق بادشاہ پختون تھے۔ صدر غنی کے پیش رو حامد کرزئی بھی پختون ہی تھے۔ لیکن اب تاجک نسلی گروپ کے افراد سن 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے سرکاری انتظامیہ، فوج اور انٹیلی جینس اداروں میں بااختیار حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔

افغانستان کی موجودہ حکومت 2014 میں امریکہ کی سرپرستی میں اختیارات میں شراکت کے ایک معاہدے کے تحت قائم ہوئی تھی جس میں اشرف غنی کو پختونوں اور چیف ایکزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو تاجک حمایت حاصل ہے۔

صدر اشرف غنی کا بلخ کے گورنر عطا محمد نور سے تنازع چل رہا ہے جو تاجک ہیں، جب کہ انہیں تاجک چیف ایکزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے خلاف کارروائی سے ملک عدم استحكام کا شکار ہو سکتا ہے۔

لوگوں کے ذہنوں میں 1990 کے عشرے میں نسلی بنیادوں پر لڑی جانے والی خانہ جنگی کی یادیں آج بھی تازہ ہیں جن میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔

حالیہ عرصے میں کابل پر دہشت گرد حملوں میں ایک سو سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعد صدر غنی پر سیکیورٹی کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے دباؤ ہے۔

شناختی کارڈ کو، جسے ای تذکرہ کہا جاتا ہے، انتخابات میں جعلی سازی کو روکنے کے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG