امریکہ کے کیوبا میں قائم قید خانے گونتاناموبے جیل سے 15 برس بعد رہائی پانے والے افغان شہری اسد اللہ ہارون کا کہنا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے، اس لیے انہیں کئی برس قبل رہا کر دیا جانا چاہیے تھا۔
وائس آف امریکہ کے لیے طاہر خان کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اسد اللہ ہارون نے کہا کہ انہیں جن الزامات کا سامنا تھا ان کے بارے میں مکمل تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
اپنی گرفتاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جلال آباد سے 2007 میں ان کی گرفتاری کے بعد انہیں ایک تصویر دکھائی گئی اور اس تصویر میں موجود شخص کے بارے میں دورانِ تفتیش مختلف سوالات کیے جاتے رہے۔
واضح رہے کہ جلال آباد شہر افغانستان کے صوبہ ننگر ہار کا دارالحکومت ہے اور آبادی کے لحاظ سے ملک کا پانچواں بڑا شہر ہے۔
طالبان نے کچھ روز قبل اعلان کیا تھا کہ امریکہ نے گوانتانامو بے میں فوجی حراست میں موجود آخری دو افغان قیدیوں میں سے ایک کو 15 برس بعد رہا کر دیا ہے جن کا نام اسد اللہ ہارون ہے۔
اسد اللہ ہارون کو 2007 میں دیگر 13 افراد کے ہمراہ پاکستان کی سرحد س کے قریب شہر جلال آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان سےپہلے جلال آباد ہی میں تفتیش کی گئی، بعد ازاں ان کو کابل اورپھر بگرام کے ہوائی اڈے میں امریکہ کے قیدخانے منتقل کیا گیا۔ 2007 میں ہی ان کو بگرام سے گوانتانامو بے جیل لے جایا گیا۔ جہاں وہ جون 2022 تک موجود رہے۔
ان کو رواں ماہ 21 جون کو گوانتانامو بے جیل سے رہائی ملی اور 22 جون 2022 کو انہیں قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر میں افغانستان کی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔
بعد ازاں اسد اللہ ہارون کو 27 جون کو ایک خصوصی پرواز کے ذریعے قطر کے دارالحکومت دوحہ سے کابل پہنچایا گیا، جہاں پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
امریکہ نے گوانتانامو بے میں نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد ایک حراستی مرکز قائم کیا تھا، جہاں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کم از کم 800 افراد کو حراست میں رکھا گیا۔ان میں سے اکثریت پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ اس مرکز میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر انسانی حقوق کے ادارے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
افغان شہری کی گوانتانامو بے سے رہائی کے بعد افغانستان میں طالبان کی عبوری کابینہ میں شامل نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان جاری کیا جس میں اسد اللہ ہارون کی رہائی کو طالبان اور امریکہ کے درمیان فروری 2020 میں ہونے والے معاہدے کے مرہون منت قرار دیا ۔
انٹرویو میں اسد اللہ ہارون کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف دراصل کسی قسم کا ثبوت نہیں تھا ۔ اس لیے ، ان کے بقول، انہیں آج سے 10 برس قبل نہیں، بلکہ گرفتاری کے چھ ماہ بعد ہی رہائی مل جانی چاہیے تھی۔ لیکن، ان کے الفاظ میں انہیں ایک طویل عرصے تک مقدمہ لڑنے یا دفاع کے لیے وکیل کی سہولت سے بھی محروم رکھا گیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دوحہ سے کابل روانہ ہونے سے ایک روز قبل امریکی حکام کے ایک وفد نے طالبان کے سیاسی دفتر میں طالبان حکام کی موجودگی میں ان کی گرفتاری اور قید پر معذرت کی۔
امریکہ کی جانب سے اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
امریکہ کے اس اقدام کے بارے میں عدالتی کارروائی کے حوالے سے اسد اللہ ہارون نے کہا کہ اس بارے میں انہوں نے ابھی تک سوچا نہیں ہے۔ وہ ایک پر امن زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں۔
گوانتانامو بے میں زندگی کے بارے میں انہوں نےبتایا کہ وہ ایک غیر قانونی حراستی مرکز ہےجہاں پر قید لوگوں کو کسی بھی عدالت تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اور اگر وہ امریکہ میں قید ہوتے تو کافی عرصہ قبل کسی بھی عدالت سے رجوع کرکے رہائی پا سکتے تھے۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سن دو ہزار ایک میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے گوانتانامو میں ملٹری کمیشنز قائم کرنے کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔ ملٹری کمیشنز فوجی عدالتیں ہیں جو جنگوں کے دوران ٖغیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد پر مقدمے چلاتی ہیں۔ تاہم بیس برس کے دوران صرف چند افراد پر فرد جرم ثابت ہوئی لیکن ان میْں سے بیشتر فیصلے امریکہ کی وفاقی عدالتوں نے جزوی یا کلی طور پر مسترد کر دیے۔ بیشتر قیدی بغیر فرد جرم کے زیر حراست رہے۔
امریکہ کے محکمہ دفاع نے گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ اسداللہ ہارون کی رہائی بھی امریکہ کی عدالت کی جانب سے اس فیصلے کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے کہ پینٹاگان کو انہیں مزید تحویل میں رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔گزشتہ برس اکتوبر میں امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے اسداللہ ہارون کی حراست کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اپنی گرفتاری کے حوالے سے اسد اللہ ہارون کا کہنا تھا کہ 2007 میں رات کے وقت امریکہ اور افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے چھاپہ مار کر انہیں 13 دیگر افراد کے ہمراہ ایک گھر سے گرفتار کیا، جہاں سے پہلے انہیں جلال آباد اور بعد میں کابل کے قریب بگرام کے ہوائی اڈے منتقل کیا گیا۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے مزید بتایا کہ جلال آباد میں زیادہ تر تفتیش ان کے نام کی تصدیق اور ایک تصویر میں موجود افراد کے بارے میں تھی کہ وہ تمام افراد کون ہیں یا وہ کس مقصد کے لیےجمع ہوئے تھے؟
انہوں نے الزام لگایا کہ حراست کے دوران جلال آباد میں ان پر کافی تشدد کیا گیا اور بگرام کے ہوائی اڈے پر تین ماہ تک انہیں سونے نہیں دیا گیا اور انہیں نیند پوری نہیں کرنے دی گئی۔ گوانتانامو بے کے قید خانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہاں حالات افغانستان میں قید کے مقابلے میں اچھے تھے اور ان پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا جاتا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گوانتانامو بے میں اب بھی 38 افراد قید ہیں جن میں ایک افغان قیدی محمد رحیم شامل ہیں جب کہ ایک پاکستانی 76 سالہ سیف اللہ پراچہ بھی وہاں قید ہیں۔
اسد اللہ ہارون کی عمر لگ بھگ 45 برس ہے۔
اسد اللہ ہارون کے ایک قریبی شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسد اللہ ہارون کا تعلق افغانستان کے پاکستان کے ساتھ سرحدی صوبے ننگرہار کے ضلع شیرزاد سے ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان عرصہ دراز سے پشاور کے نواحی علاقے میں قائم افغان خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسد اللہ ہارون شادی شدہ ہیں جب کہ ان کی گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ اور بچے ننھیال کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ان کی والدہ اور بھائی بھی اسی خیمہ بستی میں مقیم ہیں۔
انٹرویو کے دوران اسد اللہ ہارون کی طرف سے کیےگئے دعووں پر امریکی اداروں یا گوانتاناموبے جیل کی انتظامیہ کا ردعمل حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ تاہم امریکی حکام کا اسداللہ ہارون پر الزام تھا کہ وہ القاعدہ کے لیے پیغام رسانی کا کام کرتے رہے ہیں۔ اور ان کی وابستگی افغانستان کے اندر عسکریت پسند حزب اسلامی کے ساتھ ہے جو امریکہ اور اتحادی افواج پر مربوط حملوں میں ملوث رہا ہے۔
گوانتا ناموبے کے حراستی مرکز پر امریکی قوانین لاگو نہیں ہوتے تاہم اس جیل کے بارے میں انسانی حقوق کے گروپ تواتر سے آواز بلند کرتے آئے ہیں کہ یہاں موجود قیدیوں سے غیر قانونی طریقہ تفتیش اختیار کیا گیا جس کے سبب ان قیدیوں سے حاصل کیے گئے بیانات پر سوالیہ نشان ہے۔
کئی قیدیوں کو گزشتہ کچھ برسوں کے دوران یہاں سے رہائی مل چکی ہے تاہم صدر اوباما اس قید خانے کو بند کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے جبکہ صدر ٹرمپ نے اسے قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔بائیڈن انتظامیہ کا موقف رہا ہے کہ وہ اس حراستی مرکز میں موجود قیدیوں کی تعداد کم کرنے اور آخرکار اس جیل کو بند کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے جہاں اب بھی تین درجن کے قریب قیدیوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔