پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی ہے جس پر سیاسی اور دفاعی حلقے مختلف آرا رکھتے ہیں۔
بعض تجزیہ کار اس توسیع کو ملک کے مفاد میں قرار دے رہے ہیں تو کچھ مبصرین اسے فوج کے لیے بہتر نہیں سمجھتے۔
پاکستان میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نئی بات نہیں ہے۔ ماضی قریب میں 2010 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے بھی اُس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو تین سال کی توسیع دی تھی۔
اگر تین ماہ بعد آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جاتے تو سنیارٹی کے مطابق پہلے نمبر پر اسٹرٹیجک کمانڈ ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ستار، دوسرے نمبر پر چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا، تیسرے نمبر پر کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز جب کہ چوتھے نمبر پر کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل نعیم اشرف تھے۔ جن میں سے اب کوئی بھی آرمی چیف نہیں بن سکے گا۔
'ایسے فیصلے ادارے کے لیے بہتر نہیں ہوتے'
لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ وزیرِ اعظم کے اس فیصلے سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے فیصلے مجموعی طور پر فوج کے ادارے کے لیے بہتر نہیں ہوتے۔
ان کے بقول، ایک خاص مقصد کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال رکھی گئی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفی کہتے ہیں کہ ہر تین سال بعد نیا آرمی چیف نئے آئیڈیاز کے ساتھ آتا ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کی مثال دیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ ان سب کا کام کرنے کا انداز الگ الگ تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفٰی اس فیصلے سے اختلاف تو ضرور کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کے معروضی حالات اس نوعیت کے ہیں کہ فوجی کمان میں تبدیلی شاید سود مند نہ ہوتی۔
ان کے بقول، کشمیر کا آتش فشاں پھٹنے کو ہے۔ بھارت کے وزیرِ دفاع غیر ذمہ دارانہ بیانات دے رہے ہیں۔ ایسے میں مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔
'آرمی چیف تو ایک نے ہی بننا ہوتا ہے'
پاکستان کی فوج میں ترقی کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق ہر تین سال بعد چار سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرل آرمی چیف بننے کے اہل ہوتے ہیں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم ان میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔
سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کہتے ہیں کہ آرمی چیف بننا ایک بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔ تاہم، آرمی چیف چار میں سے ایک جنرل نے ہی بننا ہوتا ہے۔
ان کے بقول، آنے والے دنوں میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے ریٹائر ہونا ہے۔ لہذٰا، ان چار میں سے ایک کو ترقی دے کر فور اسٹار جنرل اور پھر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بنایا جا سکتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک لیفٹیننٹ جنرل کو ترقی دے کر وائس چیف آف آرمی اسٹاف بھی بنایا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول، اس طرح کی صورتِ حال میں آرمی چیف اور وائس آرمی چیف اختیارات تقسیم کر لیتے ہیں اور یوں نظام چلتا رہتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق فوج ایک منظم ادارہ ہے اور ماضی میں بھی اس طرح کی صورتِ حال میں ایسا بندوبست ہوتا رہا ہے۔
'آرمی چیف بننا ہر افسر کی خواہش ہوتی ہے'
سینئر تجزیہ کار بریگیڈیئر فاروق حمید کہتے ہیں کہ فوج ایک پروفیشنل ادارہ ہے اور آرمی چیف کی توسیع سے اس پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔
ان کے بقول، آرمی چیف بننا ہر افسر کی ایک قدرتی خواہش ہوتی ہے۔ تاہم، پاکستان کی فوج کے افسران کو یہ ادراک ہے کہ معروضی حالات میں کیے گئے بعض فیصلے ملکی مفاد کے لیے بہتر ہوتے ہیں۔
فاروق حمید کہتے ہیں کہ کشمیر کی صورتِ حال اس بات کی متقاضی تھی کہ فوجی کمان میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے کیوں کہ موجودہ فوجی قیادت نے نہ صرف کشمیر بلکہ افغان امن عمل کے حوالے سے بھی ایک لائحہ عمل بنا رکھا ہے۔
خیال رہے کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا انتخاب تین سال قبل اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے کیا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت کی سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری سے قبل بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی توسیع سے متعلق قیاس آرائیاں عروج پر تھیں۔ تاہم، انہوں نے ان تمام قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے توسیع نہ لینے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔