رسائی کے لنکس

طویل جنگ کے بعد بھی غزہ پر حماس کی گرفت برقرار، کیا یہ مستقل جنگ بندی کی راہ میں چیلنج بن سکتی ہے؟


ایک فلسطینی خاتون جنگ بندی کے بعد غزہ میں اپنے گھر واپس جانے کی اجازت ملنے پر خوشی میں رو رہی ہے۔ جنوبی حصے کی عارضی پناہ گاہوں میں رہنے والے فلسطینی اب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ 27 جنوری 2025
ایک فلسطینی خاتون جنگ بندی کے بعد غزہ میں اپنے گھر واپس جانے کی اجازت ملنے پر خوشی میں رو رہی ہے۔ جنوبی حصے کی عارضی پناہ گاہوں میں رہنے والے فلسطینی اب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ 27 جنوری 2025
  • جنگ بندی پر عمل درآمد کے بعد غزہ میں حماس کی پولیس فعال ہو گئی ہے۔
  • متحدہ عرب امارات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ سمیت کلیدی عطیہ دہندگان نے زور دیا ہے کہ جنگ کے بعد حماس اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔
  • حماس کا کہنا ہے کہ اس کے 18000 ملازمین نے صفائی ستھرائی اور دوسری شہری خدمات سرانجام دینا شروع کر دیں ہیں۔
  • حماس کے مؤثر کنڑول سے یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ وہاں کا مستقبل کا حکمران کون ہو گا کیونکہ اسرائیل حماس کو وہاں دیکھنا نہیں چاہتا۔
  • غزہ کی تعمیر نو پر اربوں ڈالر اور کئی سال درکار ہوں گے۔
  • ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف ملبہ اٹھانے پر 21 برس اور سوا ارب ڈالر لگ سکتے ہیں۔

اسرائیل کے ساتھ 15 ماہ کی لڑائی کےبعد جنگ بندی پر عمل شروع ہونے پر غزہ میں نیلی وردیوں میں ملبوس حماس کے زیر انتظام پولیس ایک بار پھر شہر کی سٹرکوں پر گشت کر رہی ہے۔اور امدادی قافلوں کی حفاظت کرتی نظر آ رہی ہے۔ جس سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ حماس کا اب بھی علاقے پر مؤثر انتظامی کنڑول برقرار ہے۔تاہم متحدہ عرب امارات اور نئی امریکی انتظامیہ سمیت کلیدی عطیہ دہندگان نے زور دیا ہے کہ جنگ کے بعد حماس اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔

حماس کو امریکہ اور کئی مغربی ممالک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ غزہ کی جنگ، 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے دہشت گرد حملے کے ردعمل میں شروع ہوئی تھی۔

جنگ بندی کا اطلاق ہونے کے بعد حماس کی انتظامیہ نے سیکیورٹی کو دوبارہ نافذ کرنے، لوٹ مار پر قابو پانے اور علاقے کے کچھ حصوں میں بنیادی سروسز کی بحالی کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔

حماس کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں

خبررساں ادارےرائٹرز نے جنگ بندی کی بعد کی صورت حال پر ایک درجن سے زیادہ رہائشیوں، حکام، سفارت کاروں اور سیکیورٹی ماہرین سے بات کی ، جن کا کہنا ہے کہ حماس کو ختم کرنے کے اسرائیلی عزم کے باوجود غزہ میں اس کی جڑیں گہرائی تک برقرار ہیں اور اقتدار پر اس کی گرفت مستقل جنگ بندی کی راہ میں ایک چیلنج بن سکتی ہے۔

غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں پناہ لینے والے فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔ 27 جنوری 2025
غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں پناہ لینے والے فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔ 27 جنوری 2025

ان کا کہنا ہے کہ یہ اسلامی گروپ نہ صرف غزہ کی سیکیورٹی فورسز کو کنٹرول کرتا ہے، بلکہ اس کے منتظمین وزارتیں اور سرکاری ادارے چلاتے ہیں۔ ملازمین کو تنخواہیں ادا کرتے ہیں اور بین الاقوامی این جی اوز کے ساتھ رابطے کرتے ہیں۔

حماس کی مسلح پولیس اب غزہ کی پٹی کے اطراف کی آبادیوں میں تعینات دکھائی دیتی ہے ، جب کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے مہینوں میں انہیں سڑکوں سے دور رکھا گیا تھا۔

حماس کے زیر انتظام غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے ڈائریکٹر اسماعیل الثوابتہ نے بتایا کہ ہم کسی بھی قسم کے سیکیورٹی کے خلا کو روکنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً 700 پولیس اہل کار امدادی قافلوں کی حفاظت کر رہے ہیں اورجنگ بندی کے بعد سے کوئی ایک امدادی ٹرک بھی لوٹا نہیں گیا ہے۔

غزہ کی ساحلی پٹی کی الرشید سٹریٹ پر اپنے گھروں کو لوٹنے والے فلسطینیوں کا ہجوم۔ 27 جنوری 2025
غزہ کی ساحلی پٹی کی الرشید سٹریٹ پر اپنے گھروں کو لوٹنے والے فلسطینیوں کا ہجوم۔ 27 جنوری 2025

جنیوا میں اقوام متحدہ کے ترجمان نے منگل کو تصدیق کی کہ جنگ بندی نافذ ہونے کے بعد سے امدادی کارکنوں پر لوٹ مار یا حملے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

حماس کی اعلیٗ قیادت ماری جا چکی ہے

اسرائیل نے جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کی قیادت کو پہلے ہی ختم کر دیا تھا اور پھر بعد کے عرصے میں فضائی حملوں سے نچلی سطح کے عہدے داروں اور منتظمین کو ہدف بنایا گیا۔ ان نقصانات کے باوجود الثوبتہ نے بتایا کہ حماس کے زیر انتظام انتظامیه کام کرتی رہی ہے ۔اس وقت ہمارے 18000 ملازمین روزانہ شہریوں کو خدمات فراہم کر رہے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام بلدیاتی اداروں نے سڑکوں سے ملبہ ہٹانا شروع کر دیا ہے۔ کارکن محلوں میں پانی کی فراہمی بحال کرنے کا کام کر رہے ہیں۔

حماس کی مضبوط گرفت سے اسرائیل پریشان ہے

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو حماس کو غزہ کے کنٹرول سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو حماس کو غزہ کے کنٹرول سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔

غزہ جنگ کے بعد وہاں کے مستقبل کے لیے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اصرار کے ساتھ یہ کہنے کے علاوہ کوئی نظریہ پیش نہیں کیا کہ حماس کا وہاں کوئی کردار نہیں ہو گا۔

ایک تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار یوسٹ ہلٹرمن کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی مضبوط گرفت نے اسرائیل کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے پاس ایک متبادل یہ ہے کہ وہ مستقبل میں لڑائی جاری رکھے اور لوگوں کو مارتا رہے۔ لیکن یہ چیز گزشتہ 15 مہینوں میں کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ یا پھر اس کے پاس یہ انتخاب ہے کہ وہ کسی ایسے بندوبست کی اجازت دے جس میں فلسطینی اتھارٹی حماس کی رضامندی کے ساتھ علاقے کا کنٹرول سنبھال لے۔

متعدد حکومتی ماڈلز زیر غور ہیں

سفارت کار بین الاقوامی امن دستوں پر مشتمل حکومتی ماڈلز پر بات چیت کر رہے ہیں جس میں متحدہ عرب امارات اور امریکہ دیگر ممالک کے ساتھ اس وقت تک عارضی طور پر غزہ کا نظم و نسق، سیکیورٹی اور تعمیر نو کے عمل کی نگرانی کریں گے، جب تک ایک اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی انتظام سنبھالنے کے قابل نہیں ہو جاتی۔

حماس کی رضامندی کے بغیر حکومت بننا مشکل ہے

ہلٹرمن نے مزید کہا کہ حماس کی عسکری صلاحیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ اس کے راکٹوں کے ذخائر کا کسی کو علم نہیں ہے۔ اگرچہ اس کے بہت سے تربیت یافتہ جنگجو مارے جا چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اب بھی غزہ کا سب سے طاقت ور عسکری گروپ ہے۔اس لیے حماس کی رضامندی کے بغیر کوئی بھی غزہ پر فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول کی بات نہیں کر سکتا۔

اگرچہ حماس کے سینئر رہنماؤں نے ایک اتحادی حکومت کی بات کی ہے لیکن حماس کے دیرینہ مخالف فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اس کی منظوری نہیں دی۔

جنگ بندی معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟

جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط کے تحت اسرائیل کو غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلانی ہوں گی اور ابتدائی چھ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کی شمالی حصے میں لوٹنے کی اجازت دینا ہو گی۔ اس دوران کچھ یرغمالوں کو رہا کیا جائے گا۔

جنگ بندی کے 16 ویں دن سے فریقین کو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی بات چیت کرنی ہوگی جس میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہے۔

تیسرے مرحلے میں توجہ تعمیر نو پر مرکوز ہوگی جس پر اربوں ڈالر لاگت آئے گی اور برسوں تک جاری رہے گی۔

اسرائیلی وزیر خارجہ گڈن سار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر غزہ کی پٹی میں حماس برسراقتدار رہتی ہے تو دونوں اطراف میں امن، استحکام اور سیکیورٹی نہیں ہو گی۔

جب کہ حماس کے مسلح ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس جنگ بندی کی شرائط کا احترام کرے گا اور اسرائیل بھی ایسا ہی کرے۔

بمباری سے پانچ کروڑ ٹن ملبہ بنا ہے

اقوام متحدہ کی جانب سے اس ماہ جاری ہونے والے نقصانات کے تخمینے سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں پانچ کروڑ ٹن سے زیادہ ملبہ پیدا ہوا ہے جسے صاف کرنے میں 21 سال لگ سکتے ہیں اور اس ایک ارب 25 کروڑ ڈالر لاگت آسکتی ہے۔

جنگ بندی کے معاہدے کے تحت غزہ کے لیے روزانہ 600 امدادی ٹرک امداد کی ضرورت پڑے گی۔ حماس کے زیر انتظام انتظامیہ کے ترجمان الثوبتہ کا کہنا ہے کہ وہ امدادی راستوں اور گوداموں کی حفاظت کے متعلق اقوام متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے رابطہ کر رہا ہے، لیکن امداد کی تقسیم کاکام ایجنسیاں کریں گی۔

متحدہ عرب امارات اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ سمیت کلیدی عطیہ دہندگان نے زور دیا ہے کہ جنگ کے بعد حماس اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔

عسکریت پسند حماس کے حملے کے بعد، جس میں اسرائیل کے بقول اس کے 1200 کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں، وہاں حماس کے کنٹرول والی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 46000 سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔

(اس مضمون کی تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG