امریکہ نے گذشتہ عشرے میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کے جو میدان منتخب کئے وہ امریکی سرزمین سے باہر تھے ، لیکن پچھلے چند برسوں سے امریکہ کے سیکیورٹی ادارے اس کے اپنے اندر پلنے بڑھنے والے دہشت گردوں کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں ۔ دس مارچ کو نیویارک سے امریکی کانگریس کے رکن پیٹر کنگ جو کانگریس کی ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں ، کانگریس میں امریکی مسلمانوں میں انتہا پسندی کی وجوہات کے موضوع پر ایک سماعت کروا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں میں انتہا پسند عناصر کی موجودگی امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے،لیکن اس سماعت کو مسلمانوں کے ہی نہیں، کئی دیگر اہم امریکی حلقوں کی زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
نیویارک سے تعلق رکھنے والے امریکی رکن کانگریس پیٹر کنگ کے دفتر کے باہر، جو ان کا حلقہ انتخاب بھی ہے، امریکی مسلمانوں میں انتہاپسندی کی وجوہات پر کانگریس میں دس مارچ کو ہونے والی ایک سماعت کی مخالفت اور حمایت میں مظاہرے کیے گئے ۔
امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق 20 سے28 لاکھ مسلما ن آباد ہیں۔ ان میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں ۔ جن میں امریکی کانگریس کے پہلے مسلمان رکن کیتھ ایلیسن بھی شامل ہیں ، جو دس مارچ کی سماعت میں اپنی شہادت ریکارڈ کروائیں گے ۔
وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر رکن کانگریس پیٹر کنگ کے دفتر سے اس سماعت کے بارے میں کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن کانگریس مین پیٹر کنگ کی ویب سائٹ پرامریکی مسلمانوں میں انتہا پسندی کے رجحانات میں اضافے سے متعلق ان کے سی این این کو دیئے گئے ان کے ایک متناز ع بیان کی نیوز سٹوری موجود ہے ۔
اس بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے 2004ء کہا تھا کہ امریکہ کی 80فیصد مساجد کو انتہا پسند چلا رہے ہیں ۔ میرا یہ بیان 2000ء میں شیخ کابانی کی ایک شہادت کی بنیاد پر تھا ، جو انہوں نے سٹیٹ ڈیپارٹٕمنٹ کی ایک سماعت کے دوران دی تھی۔ میں نہیں جانتا کہ اس وقت کیا حالات ہیں ، یہ تعداد 80 فیصد سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے اور اس سے کم بھی۔
نیویارک کے علاقے بروکلین کی مسجد العابدین میں جمعہ کا خطبہ سننے والوں میں نیویارک کی اسلامک لیڈر شپ کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظہیر الدین بھی شامل ہیں ، جو 80 فیصد کے اندازے کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں ۔
ان کا کہناہے کہ شاید چندایک ایسی مساجد ہوں بھی ،لیکن اگر ایسا ہے تو ہمیں ایسی کسی مسجد کا علم نہیں ہے۔ اگر پیٹر کنگ کو ایسی کسی مسجد کا علم ہے تو انہیں ضرور ان کی نشاندہی کرنی چاہئے ۔
ظہیر الدین کہتے ہیں کہ امریکہ کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے صرف پانچ فیصد واقعات کے ملزمان مسلمان ہیں ، اور ان کی تنظیم ایسے واقعات کی مذمت کرتی ہے ۔
امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق امریکی حکام نے 2001ء کے بعد سے اب تک دہشت گردی کےکل 120 منصوبے ناکام بنائے ہیں ، جن میں سے48 منصوبے امریکی مسلمانوں کے تعاون سے ناکام بنائے گئے۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر نیویارک کے ٹائم سکوائر میں غیر مسلم امریکیوں نے مسلمانوں کےساتھ اظہار یکجہتی کے لئے کانگریس میں دس مارچ کو ہونے والی ریڈیکلائزیشن ہئیرنگ کے خلاف احتجاج کیا تھا، جن میں نیویارک کے علاقے لوئر مین ہٹن میں ایک اسلامک سینٹر کی تعمیر کے لئے کوشاں امام فیصل عبدل الرؤف بھی شامل تھے ۔
ان کاکہنا ہے کہ انتہا پسند تو کسی بھی عقیدے سے متعلق ہوسکتا ہے ۔ امریکیوں میں بھی انتہا پسند ہو سکتے ہیں ، بالکل ویسے ہی جیسے مسلمانوں میں انتہا پسند ہو سکتے ہیں ۔ انتہا پسندی کا یہی وہ دائرہ ہے جسے ہمیں توڑنا ہے ۔
امریکی ادارے ایف بی آئی کی ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہوم گرون ٹیرر یا اندرونی دہشت گردی کا خدشہ سفید فام نسل پرستوں اور حکومت مخالف انتہا پسند عناصر سے بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ مسلمان انتہا پسندوں سے ۔ لیکن امریکی رکن کانگریس اپنی دس مارچ کی سماعت کا موضوع تبدیل کرنے کو تیار نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد یہی بتانا ہے کہ تمام مسلمان انتہا پسند نہیں ہیں ، لیکن مسلمانوں کی قیادت وہ نہیں کر رہی ، جو اس کا فرض ہے ۔