دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان رمضان کے مہینے میں روحانی پاکیزگی کے لئے روزے رکھتے ہیں ۔مگر تقریباً پانچ لاکھ سیاہ فام امریکیوں کے لئے رمضان کا مہینہ خاص معنیٰ رکھتا ہے۔ ان کے لئے رمضان سیاہ فام امریکیوں کے تجربے اور اسلام میں روحانی آزادی کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ میں بسنے والے زیادہ تر سیاہ فام مسلمانوں کے آباو اجداد غلام تھے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے سیاہ فام مسلمان ملک کی سب سے پرانی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سورج غروب ہونے پراذان کے ساتھ ہی وہ مسجد محمد کا رخ کرتے ہیں۔ اپنے آباو اجداد کی طرح جو 1930ءکی دہائی سے یہاں نماز پڑھتے آ رہے ہیں۔ اب تقریباً پانچ سو مسلمان واشنگٹن ڈی سی کی اس مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں۔
امریکی فضائیہ کے سابق افسر طالب شریف مسجد محمد کے نئے امام ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں سیاہ فام مسلمانوں کی زندگی دوسرے مسلمانوں سے کچھ مختلف ہے۔ ان کا کہناتھا کہ زیادہ تر سیاہ فام مسلمإنوں کے آباو اجداد مسیحی تھے۔ امریکہ میں ہم ذرا مختلف طریقے سے مسلمان ہوئے اس لئے کہ ہمارے خاندانوں کے زیادہ تر افراد اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اور ہمیں بہت سی چیزوں کے بارے میں انہیں بتا نا پڑتا ہے۔
چوبیس سالہ جوسلین کول کی زندگی اسلامی اور مسیحی روایات کے درمیان توازن پیدا کرتے گزر ی ۔ ان کی والدہ عیسائی ہیں جبکہ ان کے والد نے ان کی پیدائش سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا۔
مسجد میں خواتین کا ایک مخصوص کمرہ ہے جہاں وہ ایک دوسرے سے ٕمصافحہ کر رہی ہیں جبکہ کچن میں کچھ لوگ افطار کی تیاری میں مصروف ہیں۔
ابراہیم کے پردادہ ایک غلام تھے ۔ ان کے لئے رمضان اپنی مذہبی روایات غیر مسلموں کے ساتھ بانٹنے کا ایک موقع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے دس سال گزرجانے کے بعد بھی اکثر امریکی مسلمانوں سے گھبراتے ہیں اور اسلام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔
امام شریف کہتے ہیں کہ 1860ء کی دہائی میں غلامی کے خاتمے کے بعد سیاہ فام امریکیوں کی شہری آزادیوں اور برابری کے لئے تاریخی جدوجہد اور اسلام میں روحانی آزادی کی روایات کے درمیان ایک مضبوط تعلق پایا جاتا ہے۔ اور امریکہ کے سیاہ فام مسلمانوں کے لئے رمضان یہ سب یاد کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔
ان کا کہناہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم غلامی کے دور سے نکل کر آئے ہیں۔ وہ انسانیت کی آزادی کا سفر تھا۔اور اس تجربے سے گزر کر مسلمان ہونا تین چیزوں یعنی آزادی، انصاف اور مساوات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ہم یہی چاہتے تھے اور ہر شخص بھی یہی چاہتا ہے۔