رسائی کے لنکس

امریکہ: مسلمانوں اور یہودیوں کا مشترکہ افطار


امریکہ: مسلمانوں اور یہودیوں کا مشترکہ افطار
امریکہ: مسلمانوں اور یہودیوں کا مشترکہ افطار

رمضان المبارک میں جہاں دنیا بھر کے مسلمان مزہبی جوش و جذبے سے روزے اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں وہیں رمضان کا بابرکت مہینہ مذہبی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمان کوشش کرتے ہیں کہ اس مہینے کی برکات سے غیر مسلموں کو بھی آگاہ کیا جائے۔ امریکی ریاست میری لینڈ کی ایک مقامی مسجد میں مختلف مذاہب کے لوگوں نے مل کر افطار کا اہتمام کیا ۔

ریاست میریلینڈ کے شہر گیتھرز برگ میں ہر سال افطار کے وقت مسجد کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو مسلمانوں کے ساتھ روزہ افطار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔

امام یونس ایک مقامی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال رمضان میں مسجد کے دروازے تمام لوگوں کے لیے کھول دیتے ہیں کہ وہ یہاں آکر ہمارے ساتھ افطار کریں اور ہماری عبادات کو دیکھ سکیں۔

آج کی افطار میں مقامی یہودیوں کو مسجد میں مدعو کیا گیا ہے۔اس کا اہتمام جیودازم اسلامک ڈائیلاگ سوسائٹی نامی ایک تنظیم نے کیا ہے۔ اما م ہیتم یونس اور ربائی ڈین سپیرو اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ربائی ڈین سپیر و اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھی اور افطار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی یہ کوشش ہمارے لیے اس جستجو کا حصہ ہے کہ ہم سب لوگ دین ِ ابراہیمی کے ماننے والے ہیں ۔ جبکہ اسلام اور یہودیت میں مذہبی طور پر بہت سی چیزیں ایک جیسی ہی ہیں۔

امام ہیتم یونس کہتے ہیں کہ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ آج جہاں مقامی یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھ رہے ہیں اور روزہ افطار کررہے ہیں وہیں مسلمان بھی یہودیوں کے ساتھ مل کر یوم سبت منائیں گے ۔

یومِ سبت یہودیوں کے لیے روزے سے ملتا جلتا ایک دن ہوتا ہے ، جب وہ سورج غروب ہونے سے اگلے دن سورج غروب ہونے تک روزہ رکھتے ہیں۔ اور رمضان المبارک کی طرح روحانی طور پر خدا کے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ روزہ ہاودالا نامی ایک عبادت سے اختتام پذیر ہوتا ہے جس کا مطلب روزے کا ختم ہونا یا افطار ہی ہے۔

نماز کے بعد مسلمانوں نے بھی اس عبادت میں یہودیوں کا ساتھ دیا۔اس عبادت کو سر انجام دینے والی ہینا سپیرو کا کہنا ہے کہ یوم سبت کا روزہ کھولنے کے ساتھ کی جانے والی عبادت میں موسیقی بھی استعمال ہوتی ہے لیکن یہاں چونکہ وہ مسجد میں موجو د ہیں اس لیے مسجد کے احترام میں اسے دعائیہ انداز میں پڑھا گیا ۔

مسلمانوں اور یہودیوں کی اس منفرد اور مشترکہ فطار میں آنے والے مقامی یہودیوں اور مسلمانوں کا کہنا تھا کہ دو مختلف مذاہب کی اس مشترکہ کوشش میں رمضان کی اصل روح کے مطابق محبت ، امن اور بھائی چارے کا درس ہے

معاذ باجوہ ایک مقامی پاکستانی مسلمان ہیں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میٕں یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان اور یہودی ساتھ مل کر نہیں چل سکتے لیکن اصل میں ہم میں بہت سی مشترکہ باتیں ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مذہبی طور پر سمجھیں ۔

آئرا وائز ایک مقامی یہودی ہیں ان کے مطابق اس مسجد میں جو مسلمان آتے ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان ، بھارت یا بنگلہ دیش سے ہے جو کبھی کسی یہودی سے نہیں ملے اور ان کی رائے یہودیت کے بارے میں مکمل طور پر سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتی ہے۔

عبدلمجید امریکی ریاست پنسلوانیا سے یہاں ایک لمبا سفر کر کے پہنچے تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کی کوششوں میں گزشتہ 20 برس سے پیش پیس ہیں اور کوشش آج کی دنیا کی ضرورت ہے ۔ ہمیں انسانیت کی خاطر مل کر چلنا ہوگا۔

آندرا صوفی ایک مقامی یہودی ہیں اور مذہبی ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے بنائی گئی اس تنظیم سے بھی وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ رہ کر قرآن پڑھنا سیکھا اور مذہب اسلام کی بہت سی باتوں کو اپنی زندگی میں شامل کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے سے سیکھ کر ہی ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے قرآن کی کچھ سورتیں پڑھ کر بھی سنائیں۔

اس سوال پر کہ دنیا میں بہت سے ممالک میں غیر مسلموں کو مساجد میں جانے کی اجازت نہیں ، امام ہیتم یونس کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا میں کچھ باتیں وہاں کے مقامی طرز زندگی سے متعلق ہیں اور وہ اسلام کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتیں۔ان کاکہنا تھا ’

ایک روایت کے مطابق حضرت محمدٍﷺنے نجران سے آنے والے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عیسائی عبادات کرنے کی اجازت دی تھی ۔ تو اگر مسلمان اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ ان کا ایمان اس سے خطرے میں پڑ جائے گا تو یہ میرا تجربہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ مل کر عبادت کرنے سےمیرا ایمان مضبوط ہوا ہے‘

جبکہ رابائی ڈین سپیرو اور امام ہیتھم یونس نے اس بات پر زور دیا کہ آ ج کی دنیا میں یہودیوں کے لیئےاسلام کو سمجھنا اور مسلمانوں کو لیے یہودیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعے دونوں اپنے اپنے مذاہب کو بھی بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں اور مل جل کر زندگی گزار سکتے ہیں ۔

XS
SM
MD
LG