جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کے رکن اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بانی ارکان میں شامل علی وزیر کو شمالی وزیرستان سے ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سیکیورٹی حکام اور سول انتظامیہ نے پیر کو علی وزیر کی گرفتاری تصدیق کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا کہ علی وزیر میران شاہ سے سرحدی قصبے رزمک جا رہے تھے۔ اسی دوران ڈمڈیل چیک پوسٹ پر انہیں سیکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا ۔
حکام کا کہنا تھا کہ علی وزیر کو گرفتار کرنے کے بعد شمالی وزیرستان کے انتظامی مرکز میران شاہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر سلیم ریاض سے وائس آف امریکہ کے نمائندے نے رابطے کی متعدد بار کوشش کی تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
ضلعی پولیس افسر کے دفتر کے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ کو نام نہ ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ علی وزیر کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔علی وزیر اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں کے خلاف ریاستی اداروں پر الزامات کے مقدمات درج ہیں۔
دو روز قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایک مقدمے میں علی وزیر اور منظور پشتین سمیت پشتون تحفظ موومنٹ کے متعدد رہنماؤں کی طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا۔ان تمام افراد پر بانیٴ پاکستان کے خلاف نازیبا کلمات کی ادائیگی کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
علی وزیر کی گرفتاری کی وجوہات کے بارے میں ابھی تک کسی قسم کا سرکاری اعلامیے باقاعدہ طور پر جاری نہیں کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ علی وزیر، منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج ہے۔
رپورٹس کے مطابق اتوار کو علی وزیر کے شمالی وزیرستان پہنچنے کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے پولیس اور سیکیورٹی اہلکار متحرک ہو گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کا بھی امکان ہے۔
علی وزیر کو رواں برس ہی مختلف مقدمات میں ضمانت ملنے یا بری ہونے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔
علی وزیر کو دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کرکے کراچی پولیس کے حوالے کیا گیا تھا اور وہ اس کے بعد سے کراچی سینٹرل جیل ہی میں قید تھے۔
وہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں اور اس کی دیگر ریاستی امور میں مبینہ مداخلت پر کڑی تنقید کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔
علی وزیر خیبر پخنونخوا میں کچھ عرصے قبل ضم ہونے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت سے پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے ہیں۔
وہ احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی۔ اپنے سیاسی نظریات اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں مبینہ کردار پر کھل کر اظہارِ خیال کرنے پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علی وزیر کے والد، بھائیوں، چچا، کزن سمیت خاندان کے 18 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔