رسائی کے لنکس

توہینِ مذہب کا الزام، پشاور کا ایک خاندان محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور میں پولیس نے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے انہیں ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق مذکورہ خاندان کے ایک فرد کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب شاہین مسلم ٹاؤن میں درجنوں افراد نے ایک مقامی خاندان پر احمدی ہونے کا الزام لگاتے ہوئے خاندان کے ایک نوجوان کو توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہجوم میں شامل افراد خاصے مشتعل تھے اور متعلقہ خاندان اور ان کے گھر پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ اسی دوران پولیس موقع پر پہنچ گئی۔

پولیس نے مشتعل افراد کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی اور بعد ازاں مذکورہ خاندان کے افراد کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔

پولیس نے جمعرات کو مدعی عمران علی کی درخواست پر عبدالمجید نامی شخص کے خلاف دفعہ 295-سی کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

مدعی کے مطابق وہ بروز منگل آٹھ اگست کو بازار سے گھر کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ گھر کے سامنے دیوار پر ختمِ نبوت کا پوسٹر لگا ہوا تھا جسے دیکھ کر اس نے 'ختمِ نبوت زندہ باد' کا نعرہ لگایا۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی اثنا میں عبدالمجید نے، جو اپنے گھر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، نعرے کے جواب میں گالی دی۔ مدعی کے بقول اس حرکت سے عبدالمجید توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔

اعلیٰ پولیس حکام واقعے کے متعلق کوئی بھی بیان دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ پشاور پولیس کے سربراہ محمد علی گنڈاپور نے بھی وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر اس واقعہ پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔

واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں پشاور کی ایک عدالت کے احاطے میں توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار ایک امریکی شہری کو قتل کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG