افغان حکومت نے لگ بھگ 200 مزید طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جس کے بعد بین الافغان امن مذاکرات کے جلد انعقاد کی امید روشن ہو گئی ہے۔
افغانستان کے سینئر حکام نے بدھ کو بتایا ہے کہ دارالحکومت کابل کی مرکزی جیل سے پیر اور منگل کو طالبان قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی ہے ۔ اسی دوران طالبان نے بھی اپنی قید میں موجود افغان اسپیشل فورس کے چھ اہلکاروں کو آزاد کر دیا ہے۔
طالبان قیدیوں کی رہائی ایسے موقع پر عمل میں آئی ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت طالبان نے ایک ہزار اور افغان حکومت نے 4600 قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔
معاہدے کے تحت افغان حکومت کو پانچ ہزار قیدی رہا کرنا تھے تاہم افغان حکومت کی طرف سے باقی ماندہ 400 قیدیوں کی رہائی میں تاخیر ہو رہی تھی۔
افغان حکومت کا مؤقف تھا کہ مذکورہ 400 قیدی امریکہ سمیت دنیا بھر کے لیے خطرہ ہیں۔ تاہم صدر اشرف غنی نے لویہ جرگے کی مشاورت کے بعد ان قیدیوں کی رہائی کا فرمان بھی جاری کر دیا تھا۔
صدارتی فرمان کے بعد گزشتہ ماہ 400 میں سے 80 قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان نے جنگ بندی سے متعلق لویہ جرگہ کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے باعث باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کا عمل روک دیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان سینئر حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتانا ہے کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ بین الافغان امن مذاکرات جتنا جلدی ممکن ہو شروع کیے جائیں۔
افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے ایک جانب قیدیوں کے تبادلے کا عمل آگے بڑھ رہا ہے وہیں ملک میں پرتشدد کارروائیوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
افغان وزارتِ دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران قندھار صوبے میں 13 اور فریاب میں 11 طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔
دوسری جانب افغان صوبے پکتیا کے حکام کے مطابق طالبان نے منگل کو ایک کار بم دھماکے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے تین اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور افغان حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے امن معاہدے کے بعد سے اب تک سیکڑوں افغان سیکیورٹی اہلکار اور عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔