طالبان نے کہا ہے کہ اگر امریکہ اور نیٹو نے اپنی افواج طے شدہ معاہدے کے تحت رواں سال یکم مئی تک افغانستان سے نہ نکالیں تو وہ جنگ جاری رکھنے پر مجبور ہوں گے۔
شورش پسند گروہ طالبان کی جمعے کو یہ تنبیہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے جس میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تعینات 2500کی تعداد میں امریکی فوج یکم مئی کی طے شدہ ڈیڈ لائن کے بعد بھی ممکنہ طور پر تعینات رہ سکتی ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ایک سال قبل طے پانے والے دوحہ معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج کا انخلا یکم مئی 2021 تک مکمل ہونا تھا۔
افغانستان میں نیٹو کی سربراہی میں جاری مشن کے تحت لگ بھگ 7000 غیر امریکی فوجی تعینات ہیں۔ جب کہ افغان سیکیورٹی فورسز کی طالبان کے خلاف جاری جنگ میں مدد کے لیے 20 ہزار کنٹریکٹرز بھی موجود ہییں۔
امریکی صدر کی طرف سے افغانستان میں فوج کی تعیناتی میں ممکنہ تاخیر کی طرف اشارہ تو دیا گیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر واشنگٹن ڈیڈ لائن پر عمل نہیں بھی کرتا تو انہیں نہیں لگتا کہ امریکی افواج جنوبی ایشیائی ملک افغانستان میں اگلے سال سے آگے تک تعینات رہیں گی۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی سے جب امریکی فوج کے انخلا سے متعلق جمعے کو پوچھا گیا تھا تو جین ساکی کا گفتگو میں کہنا تھا کہ امریکی صدر اس سے متعلق ٹائم لائن پر ابھی بھی غور کر رہے ہیں۔
واشنگٹن میں ہفتے کے روز محکمہ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد ترکی اور خطے کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں جس کے دوران وہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے پر زور دیں گے۔
اس سے قبل اپنے بیان میں طالبان نے امریکی صدر کے فوجوں کے انخلا کے متعلق بیان کو مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے لیے افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے دوحہ معاہدے پر عمل در آمد ہی سب سے دانش مندانہ راستہ ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ فوج کے انخلا سے متعلق معاہدے میں طے کردہ ڈیڈ لائن میں تاخیر کرتا ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ امریکہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورتِ حال میں وہ افغانستان کی آزادی کے لیے بین الاقوامی فورسز کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کو جاری رکھنے پر مجبور ہوں گے۔
طالبان نے کہا ہے کہ جنگ کو طول دینے، ہلاکتوں اور تباہی کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہو گی جو معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے۔
جاری کردہ بیان میں طالبان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب بھی معاہدے پر قائم ہیں۔
طالبان نے واشنگٹن ڈی سی کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ وہ جنگ کے حامیوں کے مشوروں کی وجہ سے اس تاریخی موقعے کو گنوا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت نہ کی۔
واضح رہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں طے پائے جانے والے معاہدے کے بعد طالبان نے امریکہ اور اس کی حلیف فورسز کے خلاف حملے بند کر دیے تھے اور اس کے بعد سے افغانستان میں کوئی امریکی ہلاکتیں نہیں دیکھی گئی۔
اسی معاہدہ کے تحت طالبان پر بھی لازم ہے کہ وہ القاعدہ اور دوسرے دہشت گرد گروہوں سے تعلقات کو ختم کرے، افغان فورسز کے خلاف کاروائیایو ں میں کمی لائے اور اپنے افغان محالفین کے ساتھ سیاسی طاقت کی تقسیم پر امن معاہد ے کے لیے مذاکرات کریں۔
اس معاہدے کے نتیجے میں شورش پسند طالبان نے گزشتہ سال ستمبر میں افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا تھا لیکن قطر کی میزبانی میں ہونے والے یہ مذاکرات اب تعطل کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے خطے کی دیگر طاقتوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کا کہا ہے اور اسی سلسلے میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا تصور بھی پیش کیا گیا تھا جس میں طالبان کو بھی شامل کرنے کی تجویز تھی۔
اس ماہ کے شروع میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک خط میں افغان صدر اشرف غنی پر زور دیا تھا کہ وہ امن مذاکرات کو تیز کریں اور حل کی طرف پیش رفت کریں۔ اس خط میں ترکی سے کہا گیا کہ وہ ا س سلسلے میں تنازعہ میں شامل افغان پارٹیوں کا اجلاس بلائے جہاں امن معاہدہ ہو سکے۔
خیال رہے کہ رواں ماہ روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک روزہ کانفرنس بھی بلائی گئی تھی۔ کانفرنس میں افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور طالبان کی طرف سے سیاسی امور کے نائب ملا عبدالغنی برادر نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔
کانفرنس کے دوراان امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے تمام فریقین سے تشدد میں کمی لانے کا مطالبہ کیا۔ جب کہ طالبان سے کہا گیا کہ وہ موسمِ بہار میں اپنی کارروائیوں کو ترک کر دیں تاکہ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔ مشترکہ بیان میں افغان فریقین سے کہا گیا کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں اور افغانستان کو ایک آزاد، خود مختار، پرامن، متحد، جمہوری اور خود کفیل ملک بنانے کے اقدام کی حمایت کریں اور ملک کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک کریں۔
کانفرنس کے مشترکہ بیان میں افغانستان میں خواتین، بچوں، اقلیتوں اور دیگر کے حقوق کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ وہ اسلامی امارات کی بحالی کی حمایت نہیں کرتے بلکہ افغان حکومت سے کہتے ہیں کہ اس کی قومی مفاہمتی کونسل طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل کر معاملات طے کرے۔
واشنگٹن میں بائیڈن انتظامیہ، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر نظر ثانی بھی کر رہی ہے۔ ابھی نظر ثانی کا عمل مکمل نہیں ہوا۔
بائیڈن حکومت کا اس معاہدے کے بارے میں مؤقف ہے کہ یہ معاہدہ مضبوط بنیادوں پر نہیں ہوا۔