افغانستان کے لیے 2019 بھی کئی حوالوں سے اہم رہا ہے جہاں ایک طرف افغانستان میں امن و استحکام کے لیے گزشتہ 18 سال سے جاری تنازع کے حل کی توقعات بڑھیں، وہیں امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوا۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ تشدد کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے۔ تاہم، فریقین کسی حتمی امن معاہدے پر متفق نہ ہو سکے۔
رواں سال کے آغاز میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوا۔ قطر کے درالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ لیکن پرتشدد واقعات میں اضافے کا عذر پیش کرتے ہوئے ستمبر 2019 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کر دیے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2019 کے میں افغانستان میں امن و مفاہمت کے بارے میں بڑی توقعات تھیں تاہم وہ پوری نہیں ہو سکیں۔
اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان 2019 میں سوائے چند ماہ کے تعطل کے سوا یہ امن بات چیت جاری رہی دوسری طرف افغانستان میں تشدد کی کارروائیاں بھی جاری رہیں۔
لیکن، اس صورتِ حال کے باوجود افغان امور کے تجزیہ کار اور پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا عمل دوبارہ بحال ہو گیا ہے، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔
تاہم، ان کے بقول، امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں فریقین کے درمیان بنیادی متنازع امور پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان میں ایک طرف جنگ بندی اور طالبان اور کابل کے درمیان براہ راست بات چیت کا معاملہ ہے۔ اور دوسری طرف امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی۔
رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ طالبان جنگ بندی سے انکار کر رہے ہیں، لیکن امریکہ کا موقف ہے کہ امن معاہدے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات
امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے علاوہ 2019 میں افغانستان میں صدارتی انتخابات کا انعقاد بڑی پیش رفت سمجھی جاتی ہے۔ ان انتخابات میں سخت مقابلے کے بعد آخر کار صدر اشرف غنی کو کامیاب قرار دیا گیا۔
رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ صدارتی انتخابات کے بعد اب کابل حکومت کو طالبان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب فریقین کو لچک کا مظاہر کرنا چاہیے۔ تاکہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے اور بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔
رستم شاہ کہتے ہیں "افغان عوام کو امید تھی کہ 2019 جنگ کے خاتمے کا سال ہو گا۔ لیکن وہ مایوس ہوئے۔ البتہ، یہ مثبت پیش رفت تھی کہ امن معاہدے کا مسودہ تیار ہو گیا تھا۔"
یاد رہے کہ ایک طرف قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا عمل جاری رہا۔ تو دوسری طرف جولائی میں دوحہ میں بین الاٖفغان مذکرات کا اہم دور ہوا۔ جس میں افغانستان کے مستتقبل کے بارے میں اہم امور پر مفاہمت بھی سامنے آئی۔
دوسری طرف اگرچہ امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کے باوجود فریقین کے درمیان امن معاہدہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے باوجود عالمی امور کی ماہر ہما بقائی 2019 کو افغانستان کے لیے مفاہمت کا سال قرار دیتی ہیں۔
ان کے بقول، افغانستان کے بڑے اسیٹک ہولڈرز امریکہ، کابل حکومت اور طالبان نے اپنے موقف میں لچک کا مظاہر کیا۔ افغان امن عمل میں پاکستان نے ایک سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ خطے کے دیگر ملکوں کا کردار بھی مثبت رہا ہے۔ اب طالبان کی بجائے داعش خطے کے ملکوں کے خطرہ بن رہی ہے۔
ہما بقائی بھی یہ سمجھتی ہیں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہو رہی تھی۔ لیکن کابل حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے یہ مذاکرات اچانک معطل کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مذاکراتی عمل دوبارہ بحال ہو گیا۔ لیکن جلد مفاہمت نہ ہوئی تو افغانستان کی صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ کہ اگرچہ طالبان قیادت کو صورتِ حال کا ادارک ہو گا۔ تاہم، ان کے بقول، اگر طالبان اپنے موقف پر سختی سے قائم رہے تو اس کا منفی اثر ہو سکتا ہے۔
ہما بقائی کے بقول، آئندہ سال امریکہ میں انتخاب کا سال ہے اور اگر صدر ٹرمپ افغانستان میں امن سمجھوتہ کر کے امریکی فوج کو وہاں سے نکال لیں تو یہ ان کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہو گی۔
لیکن ان کےبقول کوئی امن معاہدہ نا ہوا تو یہ افغانستان اور خطے کے لیے کسی طور سود مند نہیں ہو گا۔ اس تناظر میں ان کے بقول 2019 میں افغانستان میں امن و مفاہمت کی کوششیں آئندہ سال بھی جاری رہیں گی۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ 17 سال سے جاری افغان تنازع کے حل کے لیے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔ لیکن صدر اشرف غنی کو حاصل ہونے والی کم اکثریت سے مشکلات ہو سکتی ہیں۔