رسائی کے لنکس

طالبان کے بعد والے افغانستان میں کیا کچھ بدل چکا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ ہوئے تقریبا دو عشرے گزر چکے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک اگرچہ شورش زدہ ملک میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں، سیاسی استحکام مفقود ہے، لیکن اس کے باوجود متعدد مثبت تبدیلیاں آ چکی ہے جن کو ختم کرنا اب ممکن نہیں ہو گا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ افغانستان میں ریاست اور اس کے ادارے ابھی تک کمزور ہیں اور طالبان کو فیصلہ کن شکست نہیں دی جا سکی ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں کئی قابل ذکر تبدیلیاں آئی ہیں جیسے، انفراسٹکچر بنا ہے، سڑکیں ہسپتال تعمیر ہوئے ہیں۔ متعدد یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا، خواتین سمیت نوجوانوں میں تعلیم کا رجحان ہے، سوشل میڈیا پر اظہار کی آزادی، کافی حد تک آزاد میڈیا آزاد ہے اور مقامی معیشت درآمدات برآمدات کی صورت پنپ رہی ہے۔ ان کے بقول یہ ایسی تبدیلیاں ہیں جن کو طالبان اب ختم نہیں کر سکتے بھلے وہ کسی شرکت کے ساتھ یا بلاشرکت غیربھی اقتدار حاصل کر لیں۔

ویب سائٹ ’دی بیلنس‘ کے مطابق امریکہ نے نائن الیون کے حملے بعدجب القاعدہ کے تعاقب میں افغانستان میں قدم رکھا، اس کے بعد سے لے کر اب تک (بشمول 2019 کے مکمل اخراجات کے) 975 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔

بعض تجزیہ کار یہ تنقید کرتے آئے ہیں کہ ایک کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ کو افغانستان کے اندر فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ تاہم کئی تجزیہ کار مانتے ہیں کہ امریکہ کے فوجی اقدام کے سبب القاعدہ کا نیٹ ورک تباہ کیا گیا اور تنظیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

آصف نانگ، افغان صوبے لغمان کے گورنر ہیں۔ کابل کی شرکت کے بغیر امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ناقد ہیں ۔ لیکن وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے اٹھارہ برسوں میں کئی ایک مثبت تبدیلیاں آ ئی ہیں۔

’’ سب سے اچھی تبدیلی یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن تبدیل ہوئے ہیں۔ وہ تعلیم کو پسند کرنے لگے ہیں۔ دس ملین سے زیادہ لوگ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں، ہمارے بچے ہمارے نوجوان۔ لڑائی سے پہلے ہمارے ہاں ایک کابل یونیورسٹی تھی اب تین سو سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں۔ خواتین کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی، اب بہت زیادہ ہے۔ ‘‘

گورنر آصف نانگ کے مطابق اب افغانستان کی معیشت بھی اپنی بنیادیں پکڑ رہی ہے۔

’’ اب افغانستان میں اربوں ڈالر سرکولیشن میں ہیں۔ درآمدات اور برآمدات مستحکم ہو رہے ہیں۔‘‘

کامران بخاری سنٹر فار گلوبل پالیسی کے ساتھ وابستہ تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تقریبا ایک ٹرلین ڈالر امریکہ نے افغانستان میں خرچ کیا ہے، یہ ضائع نہیں گیا۔ دیرپا تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ آج کی نئی افغان نسل ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر رہی ہے۔

’’ ایک نئی امنگ ہے، ایک نئی نسل پروان چڑھی ہے، جو سوشل میڈیا کا فائدہ اٹھا رہی ہے، ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبلائزیشن کا اثر وہا ں پڑا ہے۔ لوگ جنگ کی حالت سے نکل کر تعمیر کی راہ پر ہیں۔ سوسائٹی کے اندر نئے خیالات آئے ہیں‘‘

افغان امور کے ماہر، سابق سفیر رستم شاہ مومند بھی اعتراف کرتے ہیں کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں کافی مثبت تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔

’’ سڑکیں ہسپتال بنے ہیں۔ پریس کو بھی کچھ آزادی ملی ہے۔ لوگ لکھتے پڑھتے ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد جو باہر کی دنیا میں جا بسی ہے، وہ بھی اثر ڈال رہی ہے۔

’’ بہت سے افغان جو باہر چلے گئے ہیںِ ، ان کا باقی دنیا کے ساتھ رابطہ ہے۔ امریکہ ، آسٹریلیا ، مشرق وسطی اور باقی دنیا کے ساتھ ۔ اس طرح پچھلے سترہ اٹھارہ سال میں تبدیلیاں کافی آئی ہیں۔‘‘

ایسے میں جب امریکہ طالبان کے ساتھ کسی امن معاہدے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے، افغانستان سے یہ تشویش سامنے آ رہی ہے کہ آیا طالبان ایک بار پھرملک اپنے نظریات کے تابع لاتے ہوئے خواتین کی تعلیم اور دیگر معاشرتی تبدیلیوں کو ختم کر دیں گے؟ اس بارے میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اب آسان نہیں ہوگا، طالبان بھلے شرکت اقتدار کے معاہدے کے ساتھ حکومت میں آئیں یا بلاشرکت غیر، اس سارے عمل کو لپیٹنا ممکن نہ ہو گا۔

رستم شاہ مومند کے بقول، بجائے اس کے طالبان ان تبدیلیوں کو رخ واپس موڑیں، ان کو اپنے آپ کو ان تبدیلیوں کے مطابق تبدیل کرنا ہو گا۔

کامران بخاری کہتے ہیں کہ طالبان بندوق کے ذریعے تو لوگوں کو زیر کر سکتے ہیں لیکن ان کی امنگوں کو نہیں دبا سکتے

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG