افغان قانون سازوں نے ہفتے کے روز وزیر داخلہ اور اٹارنی جنرل کے عہدوں کے لیے حکومتی نامزدگیوں کی منظوری دی۔
پارلیمانی ووٹ کے ذریعے ایک سابق فوجی جنرل تاج محمد جہد کو وزیر داخلہ جب کہ افغان ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک سابق رُکن محمد فرید کی اٹارنی جنرل کے طور پر نامزدگی کی توثیق کی گئی۔
طالبان کی زور پکڑتی ہوئی بغاوت اور افغان اداروں میں بدعنوانی کی وبا کے انسداد کے حوالے سے یہ دو عہدے مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔
جہد کو فروری میں اُس وقت قائم مقام وزیر داخلہ تعینات کیا گیا تھا جب اُن کے پیشرو نورالحق اتمی مستعفی ہوگئے تھے، جس کا سبب قومی سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر شدید تنقید کا معاملہ تھا۔
صدر اشرف غنی کی اتحادی حکومت کو اندرونی سیاسی خلفشار کے باعث کلیدی عہدوں کو پُر کرنے میں ناکامی پر سخت نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ وزارت دفاع اور انٹیلی جنس ایجنسی کے اداروں کو قائم مقام افراد چلا رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سلامتی کے اِن دو اہم عہدوں پر تعیناتی کرنے میں ناکامی کے سبب افغان افواج کی جانب سے جاری بغاوت کے انسداد کی کارروائیاں متاثر ہورہی ہیں۔
تعمیر نو کے منصوبے
افغان فوج کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کو تشکیل دینے اور تربیت کی فراہمی کے لیے امریکہ نے 68 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ تاہم، افغانستان کی تعمیر نو کے لیے امریکہ کے خصوصی معائنہ کار جان سوپکو کے مطابق، تعمیر نو کا کام 'بُری حالت میں ہے''۔
جمعرات کو ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں سوپکو نے کہا کہ ''سکیورٹی فرائض سنبھالنے کے لیے افغانستان کو ایک سال کے اندر اندر قائدانہ ذمہ داری ادا کرنے ہوگی، اور سال بھر جاری رہنے والی بغاوت، قحط الرجالی اور استعداد کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہوگا''۔
اُنھوں نے افغانستان میں بدعنوانی کا بھی حوالہ دیا، جس کے لیے اُن کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ کی تعمیر نو کی کوششوں کی راہ میں سب سے بڑے خطرے کا باعث ہے۔
سوپکو کے بقول، ''رشوت ستانی ریاست افغانستان کی حرمت اور استحکام کو دھچکا پہنچانے کا باعث ہے۔ اس سے شکایات پیدا ہوتی ہیں جن سے محض بغاوت کو فروغ ملتا ہے، جب کہ تعمیر کی کوششوں کے لیے مختص وسائل ضائع ہوتے ہیں۔''