پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہفتہ کو پولیو کے خاتمے کا دن منایا گیا جس کا مقصد اس موذی وائرس کے خلاف لوگوں میں شعور اجاگر کر کے اسے مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان دو ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ دوسرا ملک افغانستان ہے جب کہ اسی فہرست میں شامل افریقی ملک نائیجیریا میں ایک سال سے پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آنے کی وجہ سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ جلد ہی اسے پولیو سے پاک ملک قرار دے دیا جائے گا۔
سلامتی کے خدشات اور پولیو سے بچاؤ کے قطروں سے متعلق بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے ہونے والے پروپیگنڈے نے پاکستان میں انسداد پولیو مہم کو کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیا جب کہ گزشتہ سال ملک بھر سے رپورٹ ہونے والے تین سو سے زائد کیسز کی وجہ سے پولیو وائرس کا شکار یہ دنیا کا بدترین ملک بن گیا تھا۔
تاہم حکومت کی جانب سے پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو مربوط بنانے اور شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی بدولت رواں سال پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں گزشتہ برس کی نسبت 80 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔
پولیو کے خاتمے کی قومی کوششوں کی رابطہ کار سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسے ایک قابل ذکر پیش رفت قرار دیا۔
"پچھلے سال جب نکاسی آب سے نمونے کر تجزیہ کیا جاتا تھا تو ان میں 34 فیصد میں پولیو وائرس ملتا تھا لیکن اب صرف 19 فیصد ہی میں ایسا ہو رہا ہے۔"
پاکستان میں اس سال پولیو سے متاثر 35 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جو کہ گزشتہ سال کی نسبت بہت کم تعداد ہے۔
حکومتی عہدیدار اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ انسداد پولیو کی کوششوں کو مزید موثر اور مربوط بنا کر 2016ء کے اواخر تک پولیو کے پھیلاؤ میں قابل ذکر حد تک قابو پا لیا جائے گا۔