پاکستان میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انسداد پولیو کی موثر کوششوں کی وجہ سے ملک میں رواں سال پولیو سے متاثر بچوں کی تعداد میں قابل ذکر حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے آئندہ تین سے چار ماہ کے دوران اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پا لیا جائے گا۔
اس پیش رفت کو نہ صرف ملکی بلکہ بین لااقوامی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ پورے ملک اور خصوصاً افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں سکیورٹی کی بہتر ہوتی ہوئی صورت حال کو قرار دیا جا رہا ہے۔
دنیا میں پولیو کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کے سربراہ ڈاکٹر جین مارک اولائیو نے بھی پاکستان اور قبائلی علاقوں میں پولیو کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا ہے۔
قبائلی علاقوں سے انسداد پولیو کے لیے قائم ہنگامی آپریشن سنٹر پشاور میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوارن انہوں نے انسداد پولیو کی کوششوں کو پائیدار بنیادوں پر جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر انسداد پولیو کے قومی ہنگامی آپریشن مرکز کے رابطہ کار ڈاکٹر رانا صفدر علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال اب تک سامنے آنے والے کیسوں کی تعداد میں 80 سے 85 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
"اگر ہم دیکھیں تو 2014ء کے وسط تک ہمارے اندازے کے مطابق تقریباً چھ لاکھ بچے ایسے تھے جن تک ہم نہیں پہنچ پار رہے تھے اور ان کی تعداد ستمبر 2015ء میں کم ہو کر 16 ہزار ہو گئی ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے پروگرام کے لیے نیک شگون ہے"۔
ڈاکٹر صفدر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سالوں میں بچوں کی ایک کثیر تعداد تک انسداد پولیو کی ٹیموں کی رسائی نہ ہونے کے باعث یہ بچے ان قطروں سے محروم رہے جاتے تھے تاہم اب اس مشکل پر قابو پا لیا گیا ہے۔
دنیا میں پاکستان اور افغانستان ہی صرف دو ایسے ملک ہیں جہاں پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے اس کی بڑی وجہ دونوں ملکوں میں سلامتی کی صورت حال کو قرار دیا جاتا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جون میں قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے نام سے شروع ہونے والے سکیورٹی آپریشن کے باعث ملک میں نہ صرف امن عامہ کی صورت حال بہتر ہوئی ہے بلکہ اس سے انسداد پولیو کی مہم میں بھی خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔