بولان میڈیکل کالج کے طلبا اور طالبات کا کہنا ہے کہ سالانہ فیسوں میں تین سو فیصد اضافہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ انہوں نے ماہانہ وظیفے کمی کیے بغیر فوراً ادائیگی، میڈیکل یونیورسٹی کے قیام، سالانہ امتحانات کے بر وقت انعقاد اور سیلف فنانسنگ کی بنیاد پر میڈیکل کالج میں داخلہ پروگرام ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
وائس آف امر یکہ سے جمعے کو بات کرتے ہوئے بی ایم سی کے ایک طالب علم اور بلوچ ڈاکٹرز ایکشن کمیٹی کے چیئرمین نواب بلوچ کا کہنا تھا کہ طلبا اور طالبات کا احتجاج کئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ غریب اسٹوڈنٹس ایک لاکھ روپے سالانہ فیس ادا نہیں کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اسی فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کی سالانہ فیسو ں میں یک لخت تین سو گنا اضافے کا کوئی بھی طالب علم متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہم سے 25 ہزار کی بجائے یک مشت 98 ہزار مانگے جا رہے ہیں۔ ہم کہاں سے لائیں۔
نواب بلوچ کا کہنا تھا کہ مکران میڈیکل کالج، جھالاوان میڈیکل کالج اور لورالائی میڈیکل کالج کو ایک یونیورسٹی کے تحت چلایا جائے اور بی ایم سی کے موجودہ سٹیٹس کو برقرار رکھا جائے۔
گزشتہ روز پولیس نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے والے بولان میڈیکل کالج کے درجنوں طلبا کو حراست میں لے تھا، تاہم رات گئے سب کو رہا کر دیا۔
صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بی ایم سی کے طلبا اور طالبات کا اجتجاج وفاقی ادارے ہائر ایجوکیشن کی طرف سے فیس بڑھانے کے خلاف ہے۔ صوبائی حکومت ایچ ای سی سے بات کر کے مسئلہ حل کرنے کی کو شش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے طلبا کو یقین دلایا ہے صوبائی حکومت ان کی مالی اور رہائش کی مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بلوچستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے مختلف مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کا سکینڈل سامنے آیا تھا جس پر ادارے کے طلبا اور اساتذہ نے سخت احتجاج کیا تھا۔ اس واقعہ پر بلوچستان اسمبلی کے ارکان اور اساتذہ پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی نے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ گورنر ہاﺅس میں جمع کرا دی ہے لیکن تاحال اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں ہوا۔