رسائی کے لنکس

بلوچستان میں ماہر خواتین ڈاکٹرز کی کمی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلوچستان کی خواتین کو صحت سے متعلق مختلف مسائل کا سامنا رہا ہے اور صوبے کے دوردراز علاقوں میں رہنے والی خواتین کو جدید دور میں بھی علاج ومعالجہ باالخصوص امراض نسواں کے علاج کے لئے ہزاروں کلومیٹر دور جا نا پڑتا ہے۔

صوبے کے سنئیر اور تجربہ کار ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ صوبائی دارالحکومت سے طویل فاصلے پر واقع اضلاع کی خواتین مریضوں کو درپیش مشکلات کی وجوہات قبائلی، خاندانی، سیاسی اور انتظامی اثر ورسوخ رکھنے والی خواتین ڈاکٹرز کی اپنے علاقوں میں ڈیوٹی نہ کرنے اور ان علاقوں کے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے لئے لازمی اور ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔

بولان میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل اور سول سنڈیمن اسپتال کو ئٹہ کے شعبہ یورالوجی کے سر براہ ڈاکٹر سعادت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی ڈاکٹروں کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے جس کو حل کرنے کے لئے صوبائی حکومت نے کو ئٹہ میں مزید میڈیکل کالجز قائم کر دئیے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں خواتین ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کی بنیادی وجہ انتظامی نا اہلی ہے۔

"اس وقت کو ئٹہ کے تین بڑے سرکاری اسپتالوں میں ضرورت سے زیادہ خواتین ڈاکٹروں کو بھر دیا گیا ہے اور کو ئی بھی خاتون ڈاکٹر کو ئٹہ سے باہر جانا نہیں چاہتی، خواتین ڈاکٹرز دیہی علاقوں میں جانا نہیں چاہتیں، جب وہ وہاں جائیں گی نہیں تو کمی کا احساس کیسے ہوگا، سول اسپتال، بو لان میڈیکل کمپلیکس اور شیخ زید اسپتال خواتین ڈاکٹروں سے سرپلس ہے، اگر انہی ڈاکٹروں کا تبادلہ دیہی یا اپنے علاقوں میں کرایا جاتا ہے تو وہ جانے کے لئے تیار نہیں ہیں، یہ ایک انتظامی مسئلہ ہے اور اس کا حل یہی ہے کہ کسی بھی ضلع سے تعلق رکھنے والے خاتون یا مرد میڈیکل افسر کی تر بیت کے بعد کو ئٹہ میں اس کی تقرری پر پابندی ہو نی چاہیے۔"

محکمہ صحت کے حکام کے مطابق صوبے میں ڈاکٹروں کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں خواتین ڈاکٹرز کی تعداد بارہ سو سے زیادہ ہے۔ لیکن کوئی بھی خاتون ڈاکٹر خاندانی مجبوریوں، بدامنی، خاوند کے دوسرے ضلع میں تعیناتی اور دیگر مسائل کے باعث کوئٹہ شہر سے دور جانا پسند نہیں کرتی ۔

صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی آبادی کے تناسب سے صوبے میں خواتین ڈاکٹر ز کی بہت زیادہ کمی نہیں تاہم اسپیشلسٹ خواتین ڈاکٹرز کی کمی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ درجنوں خواتین ڈاکٹرز ملک کے مختلف بڑے اسپتالوں میں ایم سی پی ایس اور ایف سی پی ایس کر رہی ہیں کورس مکمل ہونے پر ان کو مختلف اضلاع کے اسپتالو ں میں تعینات کیاجائے گا۔

سیکرٹری صحت عصمت اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ صوبے کے دوردراز علاقوں میں ڈیوٹی نہ کر نے والی خواتین اور مرد ڈاکٹرو ں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے اور تقریباً تین درجن سے زائد مرد و خواتین ڈاکٹروں کو نو ٹسز جاری کئے جاچکے ہیں مزید کارروائی بھی کی جائے گی۔

سنئیرڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ صوبے میں پانچ سو خواتین ڈاکٹرز اب بھی بیروزگار ہیں صوبائی حکومت صوبے کے فنڈ سے اسپیشلائزیشن کرنے والی خواتین ڈاکٹرز کی بیرون ملک جانے پرپابندی کے ساتھ دیہی علاقوں میں خدمات انجام دینے کو لازمی قراردینے کے لئے قانون سازی کرے تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG