پاکستان کے کمشن برائے انسانی حقوق نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں ان الزامات پر شدید تشویش ظاہر کی ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ سے منسلک بعض عناصر یونیورسٹی کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ویڈیوز کو طالب علموں کو ہراساں اور بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں 'خفیہ' کیمروں سے بنائی گئی ویڈیوز بھی شامل ہیں۔
ایچ آر سی پی کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ خفیہ کیمرے لگا کر طالب علموں کی جرائم پیشہ افراد کی طرح نگرانی کرنا سخت قابل اعتراض بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیشگی اطلاع کے بغیر کسی کی بھی سرگرمی کو خفیہ طور پر ریکارڈ کرنے کا عمل جمہوری روایات اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اس طرح کے اقدام کی پہلے اطلاع دینا ضروری ہوتا ہے۔
بقول ان کے، خفیہ کیمرے لگانا جرائم پیشہ افراد کی نگرانی کے لئے تو ٹھیک ہے، مگر طلبا کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرنے کے لئے خفیہ کیمرے لگانا ایک قابل اعتراض معاملہ ہے۔ اسی لئے پاکستان کمشن برائے انسانی حقوق نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ایچ آر سی پی نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ تنظیم کے حال ہی میں کوئٹہ کا دورہ کرنے والے فیکٹ فائنڈنگ وفد کو معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی کے احاطے میں تشویش ناک حد تک کڑی نگرانی کا سلسلہ جاری ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بظاہر یہ کام سیکورٹی کے نام پر کیا جا رہا ہے مگر حالیہ شکایات سے پتا چلتا ہے کہ نگرانی کا یہ نظام طالب علموں کو ہراساں کرنے کا آسان ترین ذریعہ بن سکتا ہے، جس کا خاص نشانہ عورتیں بنتی ہیں۔
ایچ آر سی پی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نگرانی کا نظام یونیورسٹی میں اخلاقیات کے اطلاق کی خود ساختہ ذمہ داری کو پورا کرنے اور طالب علموں کی صفوں میں ممکنہ سیاسی سرگرمیوں میں خلل ڈالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ کام مبینہ طور پر ایک نیم فوجی ادارے کے ایما پر ہوتا ہے جو یونیورسٹی میں مستقل طور پر تعینات ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جامعہ بلوچستان میں خفیہ کیمرے نصب کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ایچ آر سی پی طالب علموں کی حمایت کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ عمل ان کی نجی زندگیوں میں مداخلت اور جبر کے مترادف ہے۔
یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف طالب علموں کا احتجاج تیسرے روز بھی جاری رہا۔ طلبا نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور یونیورسٹی کے احاطے میں احتجاج کے بعد دھرنا دیا۔
یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کی طالبات کو ہراساں کیے جانے سے متعلق ہم نے پہلے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور صوبائی حکومت کو اس سے آگاہ کر دیا تھا۔
بلوچستان یونیورسٹی کا قیام 1970 میں عمل لایا گیا تھا جس کے درجنوں شعبوں میں اس وقت ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔