|
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو وائٹ ہاؤس میں اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے ملاقات کی ہے اور ایک بار پھر اپنے اس عزم کو دوہرایا ہے کہ غزہ میں فلسطینی واپس نہیں جا سکیں گے اور یہ علاقہ امریکہ کے کنٹرول میں ہو گا اور اسے ایک سیاحتی مقام میں تبدیل کیا جائے گا۔
دوسری جانب شاہ عبداللہ نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب اور دیگر ممالک کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور اس بات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ کس طرح صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔
یہ ایک ایسا منصوبہ ہےجو ممکنہ طور پر صرف اس صورت میں کام کر سکتا ہے جب اردن مزید پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر راضی ہو۔
ٹرمپ اور عبداللہ نے اوول آفس میں ملاقات کی، جہاں صدر نے کہا کہ وہ اس صورت میں کہ وہ غزہ سے لوگوں کی اپنے ملکوں میں منتقلی کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ کرنے پر راضی نہیں ہوتے، وہ اردن یا مصر جیسے دیگر عرب ممالک کے لیے امریکی امدادکو نہیں روکیں گے۔
ٹرمپ نے کہا،"مجھے اس بارے میں دھمکی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس سےبالا ترہیں،" یہ امریکی صدر کے اس سسابق بیان سے مختلف موقف ہے جس میں واشنگٹن کی جانب سے امداد روکنا ایک امکان تھا۔
شاہ عبداللہ سے صدر ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کی تعمیر نو کےمنصوبے کے بارے میں بار بار پوچھا گیا، لیکن انہوں نے اس پر کوئی ٹھوس تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس تجویز پر کہ ان کا ملک غزہ سے بڑی تعداد میں نئے مہاجرین کو قبول کر سکتا ہے۔
جب صدر ٹرمپ سے سوال کیا گیا کہ اردون کیوں فلسطینیوں کو اپنے پاس رکھے گا۔ تو انہوں یہ سوال شاہ عبداللہ سے پوچھے جانے کے لیے کہا، "میں نہیں جانتا۔لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ کہنا چاہیں۔ہم نے اس پر بات کی ہے۔آپ ابھی کچھ کہنا چاہیں گے؟:
اردن کے شاہ عبداللہ نے اس پر کہا کہ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہے کہ سعودی فرمانروا کی دعوت پر مصر اور عرب ملک ان کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں۔ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ" ہم کس طرح سے کام کریں جو سب کے لیے فائدہ مند ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ، "ظاہر ہے ہمیں امریکہ کے مفادات کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ اور خطے کے لوگوں بالخصوص میرے اپنے اردن کے لوگوں کے مفادات کو بھی۔ہم اس پر تفصیلی بات کریں گے ۔ فوری طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم دو ہزار فلسطینی بچوں کو لے رہے ہیں جو کینسر کا شکار ہیں یا شدید بیمار ہیں۔اور پھر ہم مصر کے پلان کا انتظار کریں گے کہ کس طرح ہم صدر ٹرمپ کے غزہ چیلنج سے متعلق پلان پر کام کر سکتے ہیں۔"
اس پر ٹرمپ نے اردن کو سراہتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ غزہ سے کینسر کے شکار دو ہزار بچوں کو لے رہے ہیں۔ یہ خوبصورت اظہار ہے۔ اور میں اس کی تعریف کروں گا۔
غزہ منصوبے پر امریکی صدر نے کہا،ہم اس پر کام کرتے رہیں گے۔۔ آپ دیکھیں گے کہ مصر کے ساتھ بھی بات آگے بڑھے گی، اردن کے ساتھ بھی، دیگر اعلی سطح کی شراکت داری بھی ہو گی۔ یہ پیچیدہ کام نہیں ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ا مریکہ جس بڑے زمینی رقبے پر کنٹرول چاہ رہا ہے، اس سے خطے میں استحکام آئے گا۔ مشرق وسطی میں پہلی بار استحکام آئے گا۔
بقول انکے"فلسطینی جو ابھی غزہ میں رہتے ہیں، خوبصورت انداز میں زندگی گزار رہے ہوں گے۔ تحفظ کے ساتھ۔۔۔۔ نہ کہ ہر دس سال بعد وہ مارے جا رہے ہوں یا گھروں سے نکالے جا رہے ہوں۔ میں کئی برسوں سے یہ سب کچھ دیکھتا آ رہا ہوں، وہاں سوائےمصائب کے اور کچھ بھی نہیں۔۔"
اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ، ٹرمپ نے یہ تجاویز بھی دہرائیں کہ امریکہ غزہ پر کنٹرول کر سکتا ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے لیے امریکی فنڈز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ "امریکی اتھارٹی کے تحت ممکن ہو گا، "، اس کی وضاحت کیے بغیر کہ وہ اصل میں کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے غزہ میں امریکی کنٹرول کے بارے میں کہا،"ہم کچھ خریدنے نہیں جا رہے ہیں۔ ہم اسے حاصل کرنے جا رہے ہیں،" انہوں نے تجویز پیش کی کہ تعمیر نو کے بعد علاقے میں نئے ہوٹل، دفتری عمارتیں اور مکانات تعمیرہو سکتے ہیں،اور "ہم اسے زبردست بنائیں گے۔"
ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران غزہ سے فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے اور امریکہ کے لیے علاقے کی ملکیت لینے کے بارے میں بات کی تھی۔
ٹرمپ، جنہوں نے نیویارک کی ایک رئیل اسٹیٹ ایمپائر بنائی جس نے انہیں شہرت تک پہنچایا، غزہ کے رہائشیوں کے بارے میں کہا، "میں آپ کو رئیل اسٹیٹ کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔ انہیں وہ بہت ہی پسند آئے گا۔"
عبداللہ ’ایکس‘ پر
عبداللہ تقریباً دو گھنٹے کی میٹنگ کے بعد ، قانون سازوں کے ایک دو جماعتی گروپ سے ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس سےکیپٹل ہل گئے۔ انہوں نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران، "میں نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی نقل مکانی کے خلاف اردن کے مستحکم موقف کا اعادہ کیا۔"
انہوں نے لکھا، "یہ عربوں کا متحدہ موقف ہے کہ فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو اور سنگین انسانی صورت حال سے عہدہ بر آ ہونا سب کی ترجیح ہونی چاہیے۔"
حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے بارہا یہ تجویز پیش کی ہے کہ امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھال لے اور اسے "مشرق وسطیٰ کےایک ساحلی تفریحی علاقے میں تبدیل کر دے۔ ان کی تجویز میں یہ بھی شامل ہے کہ جنگ سے تبا ہ حال علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں منتقل کر دیا جائے۔
ٹرمپ کا منگل کا بیان، ان کی پیر کی تجاویز سے متصادم ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ غزہ سے اضافی فلسطینیوں کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اردن اور مصر کے لیے امریکی فنڈنگ روک دیں گےجو دیرینہ امریکی اتحادی ہیں اور اس کی غیر ملکی امدادوصول کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔
اردن میں پہلے ہی 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی مقیم ہیں اور اس سے قبل دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر غزہ سے شہریوں کی نقل مکانی کے ٹرمپ کے منصوبے کو صاف طور پر مسترد کر چکاہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ٹرمپ کی تجویز کے لیے ان کے ملک کی مخالفت "مضبوط اور غیر متزلزل" ہے۔
اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کے دیرینہ اہداف کو خطرے میں ڈالنے کے خدشات کے علاوہ، مصر اور اردن نے نجی طور پر، اپنے ممالک میں بڑی تعداد میں اضافی پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے بارے میں سیکورٹی خدشات کا اظہار کیا ہے۔
اردن کے حکمران اپنے دورے میں ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ عہدہ داروں سے بھی ملاقات کریں گے جن میں وزیر خارجہ مارکو روبیو، قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز، مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کے علاوہ کیپیٹل ہل پر قانون سازوں کا ایک دو جماعتی گروپ بھی شامل ہے۔
وہ تیسرے غیر ملکی رہنما ہیں جنہوں نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے ٹرمپ کے ساتھ ذاتی طور پر ملاقات کی ہے۔
صدر نے ابتدائی طور پر غزہ کو محفوظ بنانے میں مدد کے لیے امریکی فوجیوں کی تعیناتی کو مسترد نہیں کیا تھالیکن ساتھ ہی اصرار کیا کہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے کوئی امریکی فنڈز ادا نہیں کیے جائیں گے۔
ٹرمپ کے ابتدائی تبصروں کے بعد، روبیو اور وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے زور دیا کہ ٹرمپ فلسطینیوں کو غزہ سےصرف "عارضی طور پر" منتقل کرنا چاہتے ہیں اور ملبہ ہٹانے، غیر پھٹنے والے ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے اور تعمیر نو کی اجازت دینے کے لیے "عبوری" مدت کا مطالبہ کررہے ہیں۔
لیکن پیر کو نشر ہونے والے صدر ٹرمپ کے فاکس نیوز کے بریٹ بائر کے ساتھ ایک انٹرویو میں جب پوچھا کہ کیا غزہ میں فلسطینیوں کو ان کے منصوبے کے تحت علاقے میں واپس جانے کا حق حاصل ہوگا، تو اانہوں نے جواب دیا، "نہیں، وہ ایسا نہیں کرسکیں گے۔"
غزہ جنگ کا آغاز
غزہ میں جنگ بندی معاہدہ لگ بھگ 15 ماہ تک ہونے والی لڑائی کے بعد ہوا ہے۔ غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
اس حملے کے جواب میں اسرائیل کی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں ہلاک ہونے والوں میں 17 ہزار عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
یہ رپورٹ اے پی کی اطلاعات پر مبنی ہے۔
فورم