رسائی کے لنکس

ٹرمپ وارننگ کی تجدید: حماس نے ہفتے تک باقی تمام یرغمالوں کو رہا نہ کیا تو جنگ بندی کو منسوخ کیا جا سکتا ہے


 فلسطینی غزہ شہر میں جبالیہ کیمپ کی ایک سڑک پر، اس علاقے کو اسرائیل کی فضائی اور زمینی حملوں سے بھاری نقصان پہنچا ہے۔ فوٹو اے پی
فلسطینی غزہ شہر میں جبالیہ کیمپ کی ایک سڑک پر، اس علاقے کو اسرائیل کی فضائی اور زمینی حملوں سے بھاری نقصان پہنچا ہے۔ فوٹو اے پی
  • صدر ٹرمپ نےاردن کے شاہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات کے دوران اپنی اس وارننگ کی تجدید کی کہ اگر حماس نے ہفتے کی دوپہر تک باقی تمام یرغمالوں کو رہا نہ کیا تو جنگ بندی کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
  • ٹرمپ نے پہلے یہ تجویز پیر کو دی تھی، بعد میں انہوں نےکہا کہ حتمی فیصلہ اسرائیل کے پاس ہے۔
  • ٹرمپ نے حماس کے بارے میں کہا، ’’ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ وہ ڈیڈ لائین طے کریں گے۔‘‘ وہ سخت شخص کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ کتنے سخت ہیں۔"
  • حماس کے عسکری ونگ نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ "مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل اگلے اعلان تک" معطل کر رہے ہیں۔
  • اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے کیوں کہ حماس کی طرف سے کسی بھی قسم کی تاخیر جنگ بندی معاہدے کی 'مکمل خلاف ورزی' ہو گی۔

ویب ڈیسک — اردن کے شاہ کا دورہ غزہ میں جاری جنگ بندی کے لیے ایک خطرناک لمحے پر ہو رہا ہے۔ حماس نےاسرائیل پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یرغمالوں کی مستقبل میں رہائی کو معطل کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے شاہ عبداللہ کے ساتھ میٹنگ کے دوران اپنی اس وارننگ کی تجدید کی کہ اگر حماس نے ہفتے کی دوپہر تک باقی تمام یرغمالوں کو رہا نہ کیا تو حماس اور اسرائیل کے درمیان اس وقت جاری جنگ بندی کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

ٹرمپ نے حماس کے بارے میں کہا، ’’ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ وہ کوئی ڈیڈ لائین طے کریں گے۔‘‘ وہ سخت شخص کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ کتنے سخت ہیں۔"

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے کہا تھا کہ یرغمالوں کی رہائی کا واحد راستہ یہی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کی شرائط کا احترام کیا جائے۔

حماس کے سینئر رہنما سمیع ابو زہری نے خبر رساں اداروں 'رائٹرز' اور 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ امریکی صدر کے(پیر کے) بیان نے جنگ بندی معاہدے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے پیر کو اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حماس ہفتے تک تمام یرغمالوں کو رہا کر دے ورنہ جنگ بندی معاہدے کو منسوخ کرنے کی تجویز دیں گے جس کے بعد بہت تباہی آئے گی۔

صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی بات کریں گے۔

صدر ٹرمپ کے اس بیان پر حماس کی جانب سے آنے والے پہلے ردِعمل میں تنظیم کے رہنما سمیع ابو زہری کا کہنا تھا کہ "ٹرمپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک معاہدہ ہے جس کا احترام دونوں فریقوں کو کرنا چاہیے اور قیدیوں کی واپسی کا بھی صرف یہی راستہ ہے۔"

حماس رہنما کے بقول دھمکیوں کی زبان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہ صرف معاملات کو مزید پیچیدہ کرتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے یہ بیان حماس کے اس اعلان کے بعد دیا تھا جس میں اس نے مزید اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی روکنے کا کہا تھا۔

حماس کے عسکری ونگ نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ "مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا عمل اگلے اعلان تک" معطل کر رہے ہیں۔

حماس کا الزام ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس کی وجہ سے شمالی غزہ میں بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی میں تاخیر ہوئی ہے جب کہ مختلف علاقوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل معاہدے کے تحت امداد کے غزہ میں بلا رکاوٹ داخلےکو یقینی بنانے میں بھی ناکام رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے آغاز سے اب تک ساڑھے 12 ہزار سے زیادہ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں اور قحط کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے۔

'فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے'

دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے کیوں کہ حماس کی طرف سے کسی بھی قسم کی تاخیر جنگ بندی معاہدے کی 'مکمل خلاف ورزی' ہو گی۔

گزشتہ ماہ جنگ بندی معاہدے کے بعد سے اب تک حماس نے 21 یرغمالوں کو رہا کیا ہے جب کہ اسرائیل نے 730 فلسطینی قیدی رہا کیے ہیں۔ معاہدے کے تحت قیدیوں کا اگلا تبادلہ ہفتے کو شیڈول تھا جس کے تحت سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کے بدلے مزید تین اسرائیلیوں کو رہا کیا جانا تھا۔

تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں حماس کو 33 یرغمالی رہا کرنے ہیں جس کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔

غزہ منصوبہ

صدر ٹرمپ نے پیر کو امریکی نشریاتی ادرے ’فاکس نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہاتھا کہ ان کے خیال میں وہ مصر اور اردن کے ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے پر ڈیل کر سکتے ہیں جس کے تحت امریکہ ان ممالک کو سالانہ اربوں ڈالر دے گا۔

جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا فلسطینیوں کو غزہ واپس آنے کا حق ہوگا؟ تو اس پرانہوں نے کہا کہ نہیں، وہ ایسا نہیں کریں گے کیوں کہ ان کے پاس بہتر گھر ہوں گے۔

صدر ٹرمپ نے کہاتھا کہ وہ فلسطینیوں کے لیے مستقل جگہ بنانے کی بات کر رہے ہیں کیوں کہ غزہ کو دوبارہ رہنے کے قابل بنانے میں برسوں لگیں گے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو سے چار فروری کو ملاقات کے بعد تجویز دی تھی کہ غزہ سے فلسطینیوں کو کہیں اور منتقل کر دیا جائے گا اور امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھال لے گا۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ لگ بھگ 15 ماہ تک ہونے والی لڑائی کے بعد ہوا ہے۔ غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

امریکہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

اس حملے کے جواب میں اسرائیل کی شروع کی گئی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس تعداد میں ہلاک ہونے والوں میں 17 ہزار عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے بعض معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس / رائٹرز / اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG